سیاسی بصیرت

ایس آئی آر‘سے’ ووٹ چوری‘ تک

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

ریاست بہارمیں جاری ’ایس آئی آر‘ کا شعلہ ابھی سرد بھی نہیں ہواہےکہ حزب مخالف لیڈرراہل گاندھی نے ’’ووٹ چوری‘‘ کا ایٹم بم پھوڑ کر ہندوستانی سیاست میں ایک بھونچال سا پیدا کردیا ہے۔ واضح رہےکہ ہندوستان جیسے عظیم جمہوری ملک میں انتخابات محض حکومت منتخب کرنےکا عمل نہیں، بلکہ عوامی آواز کو تسلیم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ لہٰذا جب اِنتخابی عمل پر سوال اُٹھائے جائیں، تو یہ نہ صرف سیاسی مسئلہ تک محدود رہتاہے بلکہ اِس کے باعث جمہوریت کی بنیادیں لرزنے لگتی ہیں اورعوام الناس کا اعتمادبھی ٹوٹنے لگتا ہے۔ راہل گاندھی کی حالیہ ’’ووٹ چوری‘‘پر مبنی پریس کانفرنس کواِسی تناظر میں ایک اہم پیش رفت مانی جاسکتی ہے، جس نے ملک گیر سطح پرایک نہ رکنے والی بحث چھیڑ دی ہے۔ راہل گاندھی کا صاف طور پر کہناہے کہ’’ووٹ چوری کوئی اتفاقیہ عمل نہیں، بلکہ ایک منظم سازش ہے۔‘‘ اُن کے مطابق رائےدہندگان کی فہرستوں میں گڑبڑیاں، ای وی ایم مشینوں کی غیرشفافیت،اور اِنتظامیہ کی جانب دارانہ عمل اِس بات کی واضح علامت ہے کہ آج جمہوریت سخت خطرے میں ہے۔ خاص طور پر جب اُن کے اِس دعویٰ کو رِیاست بہار کے حالیہ ایس آئی آر(SIR)سے جوڑا جائے تو معاملہ اور بھی سنگین ہوجاتا ہے۔
اِس بات سے ہم سبھی واقف ہیں کہ’بہاراِیس آئی آر‘ معاملے پر عدالت عظمیٰ پہلے بھی اِنتخابی کمیشن کو کافی حدتک تنبیہ کرچکی ہے، بلکہ عدلیہ نےتویہ سنجیدہ مشورہ بھی دیاتھاکہ راشن کارڈ، الیکشن کارڈ اور آدھار کارڈ کو قابل قبول دستاویز میں شمار کیا جائے، لیکن اِس کے باوجوداِلیکشن کمیشن نے اِس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اُس کے برعکس اپنی غیردانشمندانہ اور جانبدارانہ قدم کودُرست ثابت کرنے کے لیے ’بہارایس آئی آر‘ کے دوران تقریباً ۷۰؍ فیصد فارم بذات خود اِنتخابی محکمے کے افراد سے بھروادیے ، تاکہ عدلیہ کو یہ باور کرایا جاسکےکہ کمیشن نے جوبھی قدم اٹھایا ہے وہ سوچ سمجھ کر اُٹھایا ہے اوربالکل صحیح ہے۔
میڈیا رپورٹ کےمطابق: ایک ہی گھر اورایک ہی پتے پر ۶۰؍ سے لے کر ۲۰۰؍ تک رائے دہندگان کے نام ووٹر لسٹ میں درج کیےگئے ہیں۔ حدتو یہ ہےکہ رائے دہندگان کے طورپرکئی برادریوں کے افراد ایک ہی گھر میں پائے گئے ہیں۔بہت سارےجعلی ووٹرزکے نام شامل کیےگئےہیں۔کچھ خاص حلقوں میں فوت شدگان کے نام بھی ووٹرلسٹ میں شامل ہیں اور باحیات افراد کے نام خارج۔ بقول نیہاسنگھ راٹھور: ’’اب یہی دیکھنا باقی رہ گیا ہےکہ مرے ہوئے لوگ ووٹ ڈالیں گےاور زندہ لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے ترسیں گے۔‘‘ یہ بھی خلاصہ ہوا ہےکہ الیکشن کمیشن کی اِس جلدبازی نے تقریباً ۶۵؍لاکھ رائے دہندگان کو متأثر کیا ہےاور اُن کے نام ووٹر لسٹ سے خارج کردیے گئے ہیں۔اِن تمام باتوں کو دِیکھتے ایک بار پھر سے الیکشن کمیشن کے خلاف عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایاگیا ہے اورماہِ جولائی کی طرح اِس بار بھی الیکشن کمیشن، عدلیہ کے سامنے لاجواب نظرآیا۔ عدالت عظمیٰ نے ۹؍اگست تک ۶۵؍ لاکھ خارج شدہ رائےدہندگان کی تفصیل طلب کی ہے ،اور۱۲؍ اگست کو اِس معاملے پر اَگلی شنوائی کی بات کہی ہے ، اب دیکھنا یہ ہےکہ عدلیہ اِس سنجیدہ اور اہم معاملےپر کیا قدم اٹھاتی ہے؟
دوسری طرف ۷؍ اگست کوبنگلور میں راہل گاندھی نےجن پانچ طریقوں پر’ووٹ چوری‘ کا الزام عائد کیا ہےاُن میں(۱) فرضی رائے دہندگان،(۲) فرضی اور غیرمصدقہ پتے، (۳)ایک پتے بےحساب رائے دہندگان، (۴)الیکشن کارڈ پررائےدہندگان کی غلط تصویراور (۵) فارم:۶؍ کا غلط استعمال، شامل ہیں۔اُن کے مطابق: ’ووٹ چوری‘ کے یہ تمام طریقے ملک کی کئی ریاستوں اور انتخابات میں اپنائے گئے ہیں اور اِنتخابی نتیجوں کو متأثر کیا گیا ہے۔اُنھوں نےمہاراشٹر میں چالیس لاکھ فرضی ووٹرز ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ ایک ہی شخص کےکئی ایک ریاستوںمیں ووٹ دینےکے ثبوت پیش کیےہیں۔ریاست ہریانہ میں کانگریس کی شکست کا سبب بھی ’ووٹ چوری‘ کو قرار دیا ہے۔اُن کا دعویٰ ہےکہ ووٹوں کی یہ چوریاں اِس لیے ہورہی ہیں کہ انتخاب کمیشن کی طرف سےانتخابی ڈیٹا دستیاب نہیں کرایاجاتاہے۔اِس تعلق سے یہ دلچسپ بات بھی سامنے آئی ہے کہ راہل گاندھی نے اپنے دعویٰ میں جو یہ بات کہی ہےکہ ریاست کرناٹک میں ایک ہی پتے ۸۰؍ ووٹرز پائے گئے ہیں، توجب اِنڈیا ٹوڈے نےاِس کی تفتیش کی ،تویہ دعویٰ بالکل سچ ثابت ہوا، پھر جب گھر کے مالک کا پتا کیا گیا ،تووہ حکومتیکارندہ نکلا۔
ادھرمرکزی حکومت نے حسبِ توقع تمام تر الزامات کو مسترد کر دیاہے اور اُسے کانگریس کی مایوسی کا نتیجہ قرار دیاہے۔ مرکزی وزیر بھوپندر یادو یہ کہتے نظرآئے کہ’’ راہل گاندھی جھوٹ پھیلاکر عوام الناس کو گمراہ کررہے ہیں اور اِنتخابی کمیشن کے خلاف بےبنیاد الزام لگا رہے ہیں۔‘‘ ایک اورمرکزی وزیرجن کا نام ہے کرن ریجوجیو، اُنھوں نے ایک پریس کانفرنس کی اور راہل گاندھی کے دعویٰ کو یکسر خارج کردیا۔اِس پر تبصرہ کرتے ہوئےایک سینئرجرنلسٹ ونود شرماکہتے ہیں کہ ’’غضب ماجرا ہے۔ انتخابی کمیشن نے کوئی پریس کانفرنس نہیں کی، لیکن مرکزی وزیر کرن ریجوجیو نے پریس کانفرنس کردی اور راہل گاندھی کے دعویٰ کو خارج کردیا۔‘‘ ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ اگرواقعی سب کچھ صاف و شفاف ہےاورسب کچھ ویسا ہی ہےجیساکہ وزرائے موصوف کہہ رہے ہیں، تو اُنھیں چاہیےکہ اِنتخابی کمیشن کواِس بات کے لیے راضی کریں کہ وہ اوّل فرصت میں راہل گاندھی کے خلاف قانونی ایکشن لے۔بلکہ اب تو راہل گاندھی نےیہ بھی دعویٰ کردیاہے کہ انتخابی کمیشن اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے تمام تراِنتخابی ڈیٹا ختم کررہی ہے،تاکہ ثبوت کو متأثر کیا جاسکے۔ لیکن اِس قدر سنگین الزام کے باوجود بھی انتخابی کمیشن کی طرف سے کوئی پریس کانفرنس نہیں ہوئی ہے،یہ انتہائی حیرت انگیز بات ہے اور دال میں کچھ کالا ہونے کی علامت بھی ہے۔ پھر ’بہار ایس آئی آر‘معاملے میں جس عظیم پیمانے پر گڑبڑیاں نکل کرسامنےآرہی ہیں اورجس انداز سے ۶۵؍ لاکھ ووٹرز کے نام خارج کردیےگئے ہیں،اُس کی بنیاد کیا ہے؟ اِس کی وضاحت بھی انتخابی کمیشن کی طرف سے ابھی تک نہیں آئی ہے۔ایسے ناگفتہ بہ حالات سے نہ صرف عوام الناس کبیدہ خاطر ہیں بلکہ اچھے خاصے تعلیم یافتہ بھی سکتے میں ہیں ، شیتل پی سنگھ ایک تجربہ کار جرنلسٹ ہیں، وہ اپنی کبیدگی کا اظہار کچھ یوں کرتےہیںکہ’’ انتخابی کمیشن کو فوراً ختم کردینی چاہیے اور اُس کی تقرری کے خلاف تحریک چلانی چاہیے۔اب اِس صورت حال میں انتخاب کا کوئی مطلب نہیں ۔‘‘
بہرحال!جمہوریت کی بقا اورتحفظ کے لیےصرف انتخابی عمل ہی کافی نہیں ہے، بلکہ ہرایک رائےدہندہ کو اُس کی رائے کا مکمل احترام ملنابھی ضروری ہے۔ہمارے نوجوان، مزدور، کسان اور کمزورطبقہ اگریہ محسوس کرنے لگے کہ اُن کے ووٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہےاور اُنھیں دینے کا کوئی حق نہیں ہے، تو یہ ہمارےجمہوری ملک کے لیےسخت خطرہ ہے۔ ایسے میں انتخابی کمیشن، عدلیہ اور سول سوسائٹی پر عظیم ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اِن پہلوؤں پر سنجیدگی سے غوروفکرکریں۔آج صرف راہل گاندھی کی ’ووٹ چوری‘ پر مبنی پریس کانفرنس کی بات نہیں ہے، بلکہ ’بہارایس آئی آر‘( SIR )کی کارگزاریاں بھی اِس بات کے واضح اشارے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہاہے۔ اگر واقعی ہم جمہوری اقدار کے محافظ ہیں، تو ہمیں اپنی آنکھیں،کان اور دل کھلے رکھنے ہوں گے، خاموش تماشائی نہیں بلکہ ہر طرح کے غیرجمہوری طرزِ عمل کے خلاف متحدہ قدم بڑھاناہوگا،اُس کے خلاف آواز بلندکرنی ہوگی۔ کیوں کہ یہ ملک ہمارا ہے اور ہم ہی اِس کے ذمے دار ہیں۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

سیاسی بصیرت

ٹی ایم سی رائے گنج لوک سبھا الیکشن کیوں نہیں جیت پاتی؟

تحریر: محمد شہباز عالم مصباحی رائے گنج لوک سبھا حلقہ مغربی بنگال کی ایک اہم نشست ہے جس کی سیاسی
سیاسی بصیرت

مغربی بنگال میں کیا کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے؟

محمد شہباز عالم مصباحی سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال مغربی بنگال، جو ہندوستان کی سیاست میں