زیلینسکی: بھارت روسی تیل کم کرے، مغرب سے قریبی تعلق بڑھائے

یوکرین کے صدر زیلینسکی نے کہا، بھارت زیادہ تر ان کے ساتھ ہے اور امید ظاہر کی کہ مغرب کے ساتھ تعلقات بڑھنے پر روسی تیل خریداری کم ہوگی۔
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلینسکی نے کہا ہے کہ بھارت زیادہ تر مواقع پر ان کے ملک کے ساتھ کھڑا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بھارت کو روس پر توانائی کے حوالے سے انحصار کم کرنا ہے تو ضروری ہے کہ نئی دہلی اور مغربی ممالک کے درمیان اسٹریٹیجک تعاون کو مضبوط بنایا جائے۔امریکی قیادت کی جانب سے بارہا یہ اعتراض سامنے آ چکا ہے کہ بھارت روسی خام تیل خرید کر بالواسطہ طور پر یوکرین جنگ میں ماسکو کو سہارا دے رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران بھی کہا کہ بھارت اور چین روسی تیل خرید کر اس جنگ میں ماسکو کی مدد کر رہے ہیں۔ یورپی یونین نے بھی اسی نوعیت کے خدشات ظاہر کیے تھے۔اس کے جواب میں بھارت کا مؤقف یہ ہے کہ اس کی توانائی کی خریداری قومی مفاد کے تحت ہوتی ہے اور وہ جہاں سے بھی سستا تیل میسر آئے گا، وہیں سے خریدا جائے گا۔ نئی دہلی کا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپی ممالک خود ماضی میں روس سے کہیں زیادہ تیل خریدتے رہے ہیں۔
زیلینسکی نے ایک امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایران کبھی یوکرین کے ساتھ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے امریکہ سے تعلقات کشیدہ ہیں، لیکن بھارت کے معاملے میں وہ پر امید ہیں۔ ان کے مطابق اگر مغربی ملک بھارت کو اپنے ساتھ مزید قریب کریں تو امکان ہے کہ نئی دہلی روسی تیل کی خریداری پر نظرِ ثانی کرے۔انہوں نے زور دیا کہ امریکہ اور یورپ کو بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو اور زیادہ گہرا کرنا چاہیے تاکہ روسی اثر و رسوخ محدود کیا جا سکے۔ زیلینسکی کے بقول، “ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ بھارت کو ہم سے دور نہ ہونے دیا جائے، کیونکہ اگر وہ ساتھ رہے تو یقیناً روس سے تیل لینے پر اپنی پالیسی پر غور کرے گا۔”دوسری جانب سابق امریکی صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم بھارت پر تنقید جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے تجارتی مشیر پیٹر نوارو نے حالیہ بیان میں کہا کہ روسی ریفائنریاں بھارت میں داخل ہو چکی ہیں اور بڑی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق روس رعایتی قیمت پر خام تیل بھارت کو دیتا ہے اور بھارتی کمپنیاں اسے پروسیس کرکے یورپ، ایشیا اور افریقہ میں مہنگے داموں فروخت کرتی ہیں، جس سے ماسکو کو مالی فائدہ پہنچتا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق یوکرین جنگ شروع ہونے سے پہلے بھارت اپنی زیادہ تر تیل کی ضروریات مشرقِ وسطیٰ سے پوری کرتا تھا اور روسی تیل کا حصہ محض ایک فیصد سے کچھ زیادہ تھا۔ لیکن جنگ کے بعد رعایتی قیمتوں کی بدولت روس بھارت کا سب سے بڑا سپلائر بن گیا ہے۔ آج بھارت اپنی ضرورت کا تقریباً 85 فیصد تیل بیرونِ ملک سے منگواتا ہے۔ایک تحقیقی ادارے کی رپورٹ کے مطابق جون 2025 تک چین، بھارت اور ترکی روسی تیل کے سب سے بڑے خریدار رہے۔ تاہم امریکہ نے سب سے زیادہ تجارتی دباؤ بھارت پر ڈالا ہے۔ چین پر 30 فیصد اور ترکی پر 15 فیصد محصولات عائد ہیں، لیکن بھارت پر لگنے والے 50 فیصد ٹیرف کی وجہ سے اسے امریکی منڈی میں ویتنام اور بنگلہ دیش جیسے حریفوں کے مقابلے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔زیلینسکی کا کہنا ہے کہ یوکرین جلد از جلد اس جنگ کو ختم کرنا چاہتا ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ بھی اسی خواہش کے حامل ہیں۔ ان کے بقول روس کے صدر ولادیمیر پوتن یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ماسکو جنگ جیت رہا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔