زیلنسکی اور ٹرمپ کی ملاقات ناکام، معاہدہ مؤخر

وائٹ ہاؤس میں زیلنسکی اور ٹرمپ کی ملاقات شدید کشیدگی کا شکار رہی، جہاں ٹرمپ نے یوکرین کی امریکی امداد پر زیادہ شکرگزاری کا مطالبہ کیا اور جنگ بندی کی تجویز دی، جسے زیلنسکی نے مسترد کر دیا۔ اختلافات کے باعث زیلنسکی کو وقت سے پہلے ہی وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے لیے کہا گیا، اور معدنیات کا معاہدہ بغیر دستخط کے رہ گیا۔
یوکرینی صدر ولودیمیر زلنسکی جمعہ کے روز وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کامیاب مذاکرات کی امید کر رہے تھے۔ ان کا منصوبہ معدنیات کے معاہدے پر دستخط کرنا تھا، جس سے امریکہ کو یوکرین کے مستقبل میں ایک مضبوط شراکت داری حاصل ہوتی لیکن اس کے بجائے، زیلنسکی کو دنیا بھر کے میڈیا کے سامنے ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس کے سخت الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔
ٹرمپ نے یوکرین کو دی گئی امریکی امداد پر “زیادہ شکرگزاری” کا مطالبہ کیا، جب کہ زیلنسکی نے روس کے ساتھ جنگ بندی کی تجاویز کو مسترد کر دیا۔ جب زیلنسکی نے جنگ بندی سے انکار کیا تو امریکی صدر نے کہا، “آپ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ آپ امریکہ کے ہتھیاروں پر منحصر ہیں۔” ٹرمپ نے مزید کہا کہ اگر امریکی فوجی امداد نہ ہوتی تو جنگ “دو ہفتے” میں ختم ہو چکی ہوتی۔
تناؤ اس حد تک بڑھ گیا کہ زیلنسکی کو وقت سے پہلے ہی وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے لیے کہا گیا اور مجوزہ معدنیات کا معاہدہ بغیر کسی دستخط کے رہ گیا۔ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا، “جب آپ واقعی امن کے لیے تیار ہوں، تب واپس آئیں۔”
پہلا ٹکراؤ: زیلنسکی اور وینس کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ
ابتدائی طور پر نصف گھنٹے تک رسمی گفتگو اور خوشگوار ماحول تھا، لیکن وینس کی ایک سخت بات نے ماحول کو کشیدہ کر دیا۔
وینس: (سخت لہجے میں) امن اور خوشحالی کا راستہ سفارتکاری سے ہو کر گزرتا ہے اور یہی صدر ٹرمپ کر رہے ہیں۔
زیلنسکی: آپ کس قسم کی سفارتکاری کی بات کر رہے ہیں، جے ڈی؟ اس کا مطلب کیا ہے؟
وینس: وہ سفارتکاری جو آپ کے ملک کی تباہی کو روک سکے۔
نائب صدر نے زیلنسکی پر بے ادبی کا الزام لگایا اور کہا کہ امریکی میڈیا کے سامنے بحث کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
دوسرا ٹکراؤ: جب ٹرمپ کو غصہ آیا
زیلنسکی: جنگ کے دوران سب کو مشکلات ہوتی ہیں، یہاں تک کہ آپ کو بھی لیکن آپ کے پاس ایک سمندر ہے، آپ ابھی یہ محسوس نہیں کر رہے، لیکن مستقبل میں کریں گے۔
ٹرمپ: ہمیں مت بتائیں کہ ہم کیا محسوس کرنے والے ہیں۔ آپ ہمیں حکم دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ آپ لاکھوں لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ ابھی آپ کے پاس کوئی کارڈ نہیں ہے۔ آپ تیسری عالمی جنگ کا جوا کھیل رہے ہیں۔
تیسرا ٹکراؤ: ’’آپ کبھی تنہا نہیں تھے‘‘!
زیلنسکی: جنگ کے آغاز سے ہی ہم تنہا تھے، لیکن پھر بھی ہم شکر گزار ہیں۔
ٹرمپ: آپ تنہا نہیں تھے۔ ہم نے آپ کو 350 ارب ڈالر کی مدد دی ہے۔
وینس نے پوچھا کہ کیا زیلنسکی نے ملاقات کے دوران امریکہ کا شکریہ ادا کیا؟ انہوں نے یوکرینی صدر پر گزشتہ امریکی انتخابات کے دوران ڈیموکریٹس کے لیے حمایت کا الزام بھی لگایا۔
زیلنسکی: پلیز، آپ کو لگتا ہے کہ اگر آپ جنگ پر اونچی آواز میں بات کریں گے تو…
ٹرمپ: وہ اونچی آواز میں نہیں بول رہے۔ آپ کا ملک بڑی مصیبت میں ہے۔ آپ جیت نہیں رہے ہیں۔ ہماری وجہ سے ہی آپ کے پاس بچنے کا موقع ہے۔
چوتھا ٹکراؤ: ٹرمپ کا حتمی فیصلہ
ٹرمپ: اس طرح کاروبار کرنا بہت مشکل ہے۔ جب تک آپ کا نقطۂ نظر نہیں بدلے گا، کوئی معاہدہ نہیں ہوگا۔
وینس: بس، آپ صرف “شکریہ” کہہ دیں۔
وائٹ ہاؤس میں خاموشی چھا گئی۔ زیلنسکی کی سفیر اوکسانا مارکارووا نے اپنا سر پکڑ لیا۔ ٹرمپ نے گفتگو درمیان میں ہی ختم کر دی، اور زیلنسکی وائٹ ہاؤس چھوڑ کر ہوٹل چلے گئے۔
وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی کہ زیلنسکی کو جانے کے لیے کہا گیا تھا۔ ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار کے مطابق، ملاقات کے بعد یوکرینی وفد نے حالات کو سنبھالنے کی کوشش کی، لیکن قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز اور وزیر خارجہ مارکو روبیو نے یوکرینی حکام کو بتایا کہ ٹرمپ نے زیلنسکی کو فوری طور پر وائٹ ہاؤس چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ یوکرینی وفد، جو قریبی کمرے میں انتظار کر رہا تھا، کو عام طور پر ہونے والی ظہرانے کی ملاقات کے لیے مدعو نہیں کیا گیا۔