یادِمرشد

امتیاز سرمد
اسسٹنٹ پروفیسر: شعبۂ اردو، راجا سنگھ کالج، سیوان(بہار)
مجمع البحرین یعنی ایسی ذات جہاں شریعت و طریقت کے دھارے ملتے ہوں، ایسی بارگاہ جہاں دنیا کی خیر کے ساتھ عقبیٰ کی فکر سے بھی آشنائی ہوتی ہو، ایسی درس گاہ جہاں علمِ کلام کے ساتھ تزکیۂ نفس کا درس بھی دیا جاتا ہو، ایسی پاکیزہ محفل جس میں شعر و ادب کی باتوں کے ساتھ روحانیت کے جام بھی پلائےجاتے ہوں۔یہاں ایک ایسے ہی پیرِ ُمغاں(مجمع البحرین حضرت مفتی عبیدالرحمٰن رشیدی) کا ذکرِ خیر مقصود ہے:
دلِ عاشق میں قلق حد سے سوا ہوتا ہے
ذکرِ محبوب بھی اندوہ فزا ہوتا ہے
غالباً90 19ء کا سال تھا ، راقمِ سطور خانقاہِ عالیہ رشیدیہ، جونپور کے ماتحت چلنے والے ایک دینی ادارے دارالعلوم حیدریہ معینیہ نیا قلعہ، سیوان میں زیرِ تعلیم تھا۔ حضرت ِمجمع البحرین مذکورہ خانقاہ کے سجادہ نشین تھے۔ اس ادارے کے توسط سے ہی کسی حد تک خانقاہِ رشیدیہ سے میں متعارف ہوا چوں کہ یہ ادارہ حضرتِ آسی کی یادگار ہے، اس لیے حضرتِ آسی کی شاعری سے کسی حد تک شناسائی بھی یہیں حاصل ہوئی۔ خانقاہ ِرشیدیہ اور اس کے مشائخ کی سادگی، عبادت و ریاضت اور علمی کارناموں سے آگاہی حاصل کرنا میرے ذوق کا حصہ بن گیا۔حضور مجمع البحرین کی مقناطیسی شخصیت کے ساتھ ساتھ حضرت ِآسی کی شاعری سے میں خود کو وابستہ رکھے ہوا تھا۔ مبارک پور، دلی، بنگال جہاں بھی رہا ہر جگہ میلانِ طبع خانقاہ ِرشیدیہ اور اس کے مشائخ کی طرف رہا۔ حضرتِ آسی کا دیوان مرتب کرنے کا ارادہ بھی میں نے کیا تھا۔ حضرتِ اقدس سے اس تعلق سے باتیں ہوئیں آپ نے جواباً کہا بہتر تو یہ ہوگا کہ حضرتِ آسی کے خطوط پر کام کیا جائے۔ اسی دوران غالباً 2013 ء میں شاہ عبدالعلیم آسی فاؤنڈیشن، دہلی کا قیام عمل میں آیا۔
2014 ءمیں حضرتِ آسی کی شاعری کے حوالے سے ایک قومی سمینار بنارس میں منعقد ہوا۔اس موقعے سے دیوانِ آسی کے ساتھ کئی ایک اہم کتب کی اشاعت عمل میں آئی۔ دیوانِ آسی کی اشاعتِ جدید سے مجھے ذاتی طور پر مسرت ہوئی۔ ستمبر 2014 ءمیں مجھے دہلی میں ملازمت مل گئی۔ آسی فاؤنڈیشن کا قرب حاصل ہوا۔ 2015 ءمیں آسی فاؤنڈیشن کی ایک اہم میٹنگ دہلی میں منعقد ہوئی۔ مجھے بھی اس کی اطلاع دی گئی، میں شریک ہوا۔ یہ میٹنگ حضور مجمع البحرین کی صدارت میں ہوئی تھی۔ یہ موقع میرے لیے بہت خاص تھا۔ میری تمام تر توجہ حضرت کی جانب تھی ۔ایک ٹک میں حضرت کے روےزیبا کو تکے جا رہا تھا، دل کی کیفیت کچھ ایسی تھی:
جاناں !خیالِ روےتو دارندہ ہرکسے
لیکن زِمن نباشد مشتاق تر کسے
میٹنگ کے اختتام سے قبل ہی دل اس محبوب ِخاص کا حلقہ بگوش ہو چکا تھا۔ موقع ملتے ہی خاکسار نے مولانا اصغر رشیدی سے مدعاےدل بیان کر دیا۔ مولانا نے حضور مجمع البحرین سے اجازت مانگی، اجازت مل گئی۔ اگلی صبح آسی فاؤنڈیشن حاضر ہونے کا حکم ہوا۔ ایک عجیب سی سرمستی لیے میں اپنے گھر پہنچا۔ اگلی صبح دل میں ہزار امیدیں سجائے گھر سے آسی فاؤنڈیشن کے لیے روانہ ہو گیا۔ میری قیام گاہ سے فاؤنڈیشن کی دوری 30 کلومیٹر سے زائد ہے۔ ٹریفک بھی جگہ جگہ جام تھا، اس لیے پہنچنے میں تاخیر ہورہی تھی۔ اس دوران حضرت نے متعدد بار مولانا اصغر رشیدی سے جاننا چاہا کہ امتیاز سرمد کہاں تک پہنچے۔ آخر کار میں حاضرِ بارگاہ ہوا۔ سلام و دست بوسی سے فارغ ہونے کے بعد حضرت نے اپنے ساتھ ناشتہ کرایا، پھر اپنے دستِ حق پرست پر بیعت کی۔ رُسومِ بیعت سے فراغت کے بعد دو رکعت نفل نماز ادا کرنے اور دین و دنیا کی بھلائی کے لیے طویل دعائیں مانگنے کا حکم ہوا۔
بندہ تو بے دام بک چکا تھا۔ ہمہ وقت دل میں یہ ارمان مچلتا رہتا کہ حضرت سے ملاقات کا موقع نصیب ہو، آپ کی صحبتِ فیض رساں سے استفادے کا موقع ملے۔ قسمت نے یاوری کی آئندہ سال 2016 ء میں حضرت سیوان تشریف لائے، میں بھی ان دنوں گھر آیا ہوا تھا۔ حضرت کے استقبال کے لیے ریلوے اسٹیشن گیا، پھر خانقاہ میں حاضری ہوئی۔ سلام و دست بوسی کے بعد ذرا سا ہٹ کر حضرت کی دائیں جانب میں بیٹھ گیا۔ حضرت مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ آپ سے بات ہوئی تھی، آج شام کو، مَیں آپ کے گھر آؤں گا۔ میں سوچنے لگا ایسی تو کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ اس سے پہلے کہ جواباً میں کچھ عرض کرتا مولانا اصغر رشیدی نے میرے پاؤں پر ہاتھ رکھا، اشارہ تھا کہ کچھ بولنا نہیں ہے۔ شام کو حضرت میرے غریب خانے پر تشریف لائے۔ میں خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ میرے والدین بھی اپنے پیر کی آمد سے سرشار تھے۔ حضرت عام طور پر کسی کے گھر آسانی سے نہیں جاتے تھے۔ مجھ گنہ گار پر یہ نوازش، یہ کرم فرمائی کیا کہنا! ذہن میں یہ خیال آرہا تھا کہ نوازنے والا نوازنے پر آجائے تو کیا نیک، کیا بد۔ میں تو شاید کبھی بھی حضرت کو غریب خانے پر بلانے کی ہمت نہیں کر پاتا۔
اب موقعے موقعے سے حضرت کی صحبتیں حاصل ہوتی رہیں، بہمن برہ شریف میں حضرت قطب الہند کے عرس کا موقع تھا۔ میں حاضر ہوا۔ حضرت آرام فرما رہے تھے، مجھے معلوم ہوا کہ فاضلِ گرامی ابرار رضا مصباحی حضرت متولی صاحب کے کمرے میں ہیں۔ میں آگے بڑھ گیا، سلام و دعا کے بعد گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہوا ہی چاہتا تھا کہ حضرت ِاقدس متولی صاحب کے کمرے میں تشریف لائے۔ خاکسار نے سلام و دست بوسی کی۔ حضرتِ اقدس، متولی صاحب سے میرا تعارف کرانے لگے کہ یہ امتیاز سرمد ہیں، لکھنے پڑھنے والے آدمی ہیں۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔’من آنم کہ من دانم‘ میں سراپا تصویر بنا حضرت کے گہر بار جملے سنتا رہا۔ حقیقت یہی ہے کہ اس سراپا تقصیر کو لکھنے، پڑھنے سے دور کاہی رشتہ ہے۔ قلم اتنا کوتاہ کہ سالہا سال بعد چند سطریں لکھنے کی توفیق مل پاتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ بات صرف اتنی سی تھی کہ آسی فاؤنڈیشن سے وابستہ ہونے کے بعد میری کوشش رہتی تھی کہ فاؤنڈیشن کے لیے اخلاص کے ساتھ کچھ نہ کچھ کام کرتا رہوں۔ اس ذرا سی خدمت کا اتنا صلہ ملے گا یہ تو خوابوں میں بھی نہیں سوچا تھا۔ میری کم ظرفی اپنی جگہ نوازنے والے کی اعلا ظرفی اپنی جگہ!
2017 ء میں حضرتِ فانی گورکھپوری کے تعلق سے بنارس میں قومی سمینار کا اہتمام کیا گیا۔ نظامت کی ذمے داری خاکسار کو دی گئی۔ ایک روز قبل حضرت نے سمینار کے ذمے داروں کو اپنے پاس بٹھا کر سمینار کے حوالے سے خاص خاص ہدایتیں دیں۔ مجھ سے کہا گیاکہ ناظم حضرات عام طور پر غیر ضروری اور غیر متعلق باتوں میں سامعین کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ یہ عمل غیر مناسب ہے۔ ضروری اور اہم باتیں ہی ہونی چاہئیں۔ مذکورہ سمینار کئی جہتوں سے کامیاب رہا۔ اختتام کے بعد حضرت نے پورے سمینار کا تجزیہ کیا۔ خاکسار کی نظامت کو بالعموم سراہا گیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ خانقاہِ رشیدیہ کے ماتحت چلنے والے ادارے دارالعلوم حیدریہ معینیہ نیا قلعہ، سیوان کے ایک دینی اجلاس کی نظامت حضرت نے مجھے سونپی، حالاں کہ اشتہارِ جلسہ میں بطور ِناظم کسی اور صاحب کا نام درج تھا۔ حضرت کا کہنا تھا کہ خانقاہ اور آسی فاؤنڈیشن کا تعارف امتیاز سرمد بہتر ڈھنگ سے کرا سکتے ہیں۔ تعمیل ِارشاد کرتے ہوئے میں سیوان حاضر ہوا اور اس ذمے داری کو نبھانے کی بھرپور کوشش کی۔ اس گنہ گار پر حضرتِ اقدس کی نوازشوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔
2019 ءمیں بڑے سرکار حضرت سید شاہد علی سبزپوش، فانی گورکھپوری کے کلیات کی تقریبِ رونمائی کا اہتمام نیا قلعہ، سیوان میں کیا گیا۔اس تقریب میں حضرت مجمع البحرین، حضرت معروف بابو(سابق متولی اور موجودہ سجادہ نشین) اور مولانا سجاد صاحب( سابق صدر: آسی فاؤنڈیشن) بطورِ خاص شریک تھے۔فاضلِ گرامی ابرار رضا مصباحی نے آسی فاؤنڈیشن کے اغراض و مقاصد پر تفصیلی روشنی ڈالی تھی۔ معروف ناقد، محقق اور طنزومزاح کے شاعر ڈاکٹر ظفر کمالی نے خصوصی خطاب فرمایا تھا۔اس خصوصی خطاب میں آپ نے خانقاہِ رشیدیہ اور اس کے مشائخ سے اپنے روحانی رشتے کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت فانی گورکھپوری کی شاعری پر بھرپور روشنی ڈالی تھی۔اس محفلِ خاص کی نظامت کی ذمے داری بھی مجھ خاکسار کو سونپی گئی تھی۔
آسی فاؤنڈیشن سے میری قلبی وابستگی کل بھی تھی، آج بھی ہے۔ حضرتِ اقدس کے منشا کے مطابق مجھے فاؤنڈیشن کا جوائنٹ سکریٹری نامزد کیا گیا تھا۔ ایک عرصے تک یہ ذمے داری خاکسار نبھاتا رہا۔ حضرت نے اپنی وفات سے چند ماہ قبل آسی فاؤنڈیشن کی منتظمہ کمیٹی کی تشکیلِ نو کی تھی۔ حضرت نے اس سلسلے میں تمام تر ذمے داران سے موبائل فون پر رابطہ کیا۔ اس تعلق سے حضرت کی کال میرے موبائل پر بھی آئی تھی، یہ پہلی اور آخری کال تھی۔ حضرت نے فاؤنڈیشن کی منتظمہ کمیٹی کے حوالے سے تفصیل سے مجھ سے بات کی۔ آپ نے اس سلسلے میں جمہوری طریقہ اپنایا، تمام ذمے داران سے مشورے کیے، سب سے رائیں لی گئیں، پھر آپ نے کمیٹی کو حتمی شکل دی۔ اس طرح بارِ دیگر بھی جوائنٹ سکریٹری کی ذمے داری خاکسار کے سر آئی۔
حضرت سے عقیدت اور تعلق کا پھیلاوبرسوں پر محیط ہے، لیکن 2014ء سے 2024ء تک کا دورانیہ میرے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس عرصے میں حضرت کی صحبت میسر آئی، قرب حاصل رہا اور ایک مرید کی حیثیت سے آپ کی گفتگو سے معانی کشید کرنے کے مواقع ملتے رہے۔اپنے جذبات و احساسات کو لفظوں کا جامہ پہنانا ناممکن نہیں، لیکن مشکل ضرور ہے۔ حضرتِ اقدس کے تعلق سے یہ میری ذاتی راے ہے کہ آپ اخلاقِ حسنہ کے پیکر تھے۔ اپنے احباب، علماے کرام، مریدین سب کی خیریت دریافت کرتے۔ ان کی خبرگیری کرتے، کسی کے ہاں موت واقع ہو جائے تو اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے، کسی کو کوئی مرض لاحق ہو جائے تو اس کے لیے دعاے صحت کرتے۔ سب کا خیال سب کی دل جوئی ،گویا آپ حضرت ِآسی کے اس شعر کی عملی تفسیر تھے:
اخلاق سب سے کرنا تسخیر ہے تو یہ ہے
خاک آپ کو سمجھنا، اکسیر ہے تو یہ ہے
حضرت کے اخلاقِ کریمانہ کے بعد ان کی سادگی ان کے مریدین اور معتقدین کو بہت متاثر کرتی تھی۔ سادہ زندگی اور اعلا فکر کے آپ بہترین نمونہ تھے۔ آپ کا پہناوا، کھان پان اور طرزِ زندگی سادگی سے عبارت تھی۔ اپنے زمانے کے عظیم اداروں سے کسبِ فیض کرنے کے بعد کئی اہم اداروں میں آپ نے تدریسی فرائض انجام دیے۔ اپنے اکابر اور معاصر علما میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ آپ کی علمیت اور تفقہ فی الدین کا ایک زمانہ معترف تھا، اس کے باوجود افہام و تفہیم کے لیے جو لب و لہجہ اختیار کرتے وہ شدت پسندی سے یکسر پاک اور خاکساری کا بہترین نمونہ ہوتا تھا۔
حضرت کی زبان مجھے ذاتی طور پر بہت پسند تھی۔ آپ جس خطے سے تعلق رکھتے تھے، وہاں کی علاقائی زبان سورجا پوری ہے، جس پر بنگلہ کے واضح اثرات ہیں۔ وہاں کے لوگ عام طور پر جب اردو بولتے ہیں تو ان اثرات سے خود کو بچا پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنی زبان کو ان اثرات سے پاک کرنے کی شعوری کوشش کرتے ہیں، انھیں اندازہ ہوگا کہ یہ کام کتنا مشکل ہوتا ہے۔ میں نے حضرتِ اقدس کو کبھی بھی علاقائی زبان میں گفتگو کرتے نہیں سنا۔ صاف، شستہ اور د لچسپ لہجے میں آپ مخاطَب کے ذہن کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہمیشہ اردو زبان میں ہی گفتگو فرماتے تھے۔ گفتگو کو مزید پُراثر بنانے کے لیے آپ آیاتِ کریمہ، احادیثِ مبارکہ اور کلاسیکی شعرا بالخصوص حضرتِ آسی، مرزا غالب اور حضرت ِفانی گورکھپوری کے اشعار سناتے، ان کی وضاحت فرماتے اور اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے۔ سامعین کو حد درجہ مطمئن کرنے کی کوشش کرتے۔
آپ کی مجلسی گفتگو عام طور پر علمی ہوتی تھی۔ آپ کی علمی گفتگو سے استفادہ کرنے والوں میں جید علما، فضلا، مفتیان اور شعرا و ادبا سبھی شامل ہیں۔ عام طور پر سامعین کے معیار و مزاج کے حساب سے آپ ایک موضوع طے کر لیتے، پھر اس پر ایک مرتب گفتگو فرماتے۔ یہ گفتگو مدلل اور واضح ہوتی۔ اس میں نصیحت کا پہلو بھی شامل ہوتا۔ اس کے لیے آپ جو انداز اپناتے وہ صرف ناصحانہ نہیں ہوتا، بلکہ اس میں خاص طرح کی دل کشی بھی شامل ہوتی۔ انبیاے کرام، صحابۂ عظام اور اولیاے کاملین کے حالات و واقعات سنا کر جو نتائج اخذ کیے جاتے وہ مریدین (سامعین) کے دلوں کی کثافتوں کو دور کرنے میں معاون ثابت ہوتے۔ مریدین کے تزکیۂ قلب کا یہ انوکھا انداز تھا۔ ایسے مریدین سے آپ نالاں ہوتے جو بھاگے بھاگے عرس میں شریک ہوتے اور فوراً واپسی کی اجازت مانگتے۔ مریضوں کی صحت یابی، تجارت میں ترقی، گھریلو مسائل سے نجات وغیرہ کے لیے لوگ دعاؤں کی گزارش کرتے۔ آپ انھیں دعاؤں سے ضرور نوازتے، لیکن اپنی مجلس میں کہتے کہ جو آتا ہے وہ دنیا طلبی کے لیے آتا ہے۔ آخرت کی بہتری کے لیے دعائیں کروانے کوئی نہیں آتا۔
حضرتِ اقدس عقائد کے معاملے میں متصلب ضرور تھے، لیکن مسلکی شدت پسندی سے بیزار تھے۔ سلسلے کے بزرگوں سے آپ کو والہانہ لگاو تھا، اس لگاو میں خاص طرح کی عقیدت شامل تھی ۔کسی مسئلے سے متعلق اپنا موقف بیان کرنے کے ساتھ سلسلے کے بزرگوں کا ذکرِ خیر بھی کرتے اور یہ کہتے کہ میرایہ عمل اس لیے ہے کہ یہ ہمارے بزرگوں کا پسندیدہ عمل ہے۔ علما کے مابین ہمیشہ امتیازی شان سے رہے۔ آپ کے مریدین کی طرح آپ کے قدر دانوں کا حلقہ بھی بہت وسیع ہے۔ اصاغر نوازی کے لیے بھی آپ کی ذات والا تبار قابلِ رشک تھی۔ علاقے کے علاوہ دور دراز سے نوجوان علما کی بڑی تعداد استفادے کے لیے آپ کے پاس آتی۔ آپ ان کا حد درجہ خیال رکھتے، ان کے مسائل سنتے، ان کو اپنی بات رکھنے کا پورا موقع دیتے، پھر اپنے خاص انداز میں مدلل اور مفصل جواب عنایت کرتے۔ ساتھ ہی خاکساری کے طور پر یہ بھی کہتے کہ کتابوں سے رشتہ میرا کمزور پڑ گیا ہے، آپ فلاں فلاں کتابوں کے فلاں فلاں ابواب دیکھ لیجیے گا۔
قدرت نے آپ کو بلا کی ذہانت تو عطا کی ہی تھی، حافظہ بھی بڑا غضب کا پایا تھا ۔ کہاں کہاں کی کیسی کیسی باتیں آپ بیان کرتے۔ قرآن کی آیات، احادیث، شعرا کے اشعار زبان زد رہتے۔ بہت سے علما کا کہنا ہے کہ آپ نے دورانِ گفتگو جن کتب اور متعلقہ ابواب کی نشاندہی کی تھی تلاش کرنے پر وہ ساری عبارتیں وہاں موجود ملیں۔
16 مئی 2022 ء کو شاہ عبدالعلیم آسی فاؤنڈیشن کا سالانہ اجلاس حضرت کے منشا کے مطابق درگاہ شریف، چمنی بازار، پورنیہ میں رکھا گیا۔ اس اجلاس میں فاؤنڈیشن کے زیادہ تر ذمے داران شریک تھے۔ بہت اہم گفتگو ہوئی تھی۔ حضرت نے خود فاؤنڈیشن کی ترقی اور کامیابی کے لیے راہ نما اصول بتائے اور دعاؤں سے نوازا۔ اس موقعے سے ایک مجلسی گفتگو میں آپ نے حضرت ہاشم علی سبز پوش(خانقاہِ رشیدیہ کے متولی اور معنوی سجادہ نشین) کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے اپنی وفات سے قبل زمین جائداد اور وراثت کے معاملات کو تحریری طور پر طے کر لیا تھا۔ اپنے لیے کفن کا انتظام کر لیا تھا۔ دیگر اخراجات اور آخری رسوم کی ادائیگی کے لیے کچھ رقم مختص کر لی تھی۔ یہ تمام باتیں بتانے کے بعد حضرتِ اقدس نے اپنی کمزوری اور معذوری کا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اب سفر کرنے کی سکت نہیں رہی، اب کہیں نہیں جانا ہے۔ میں نے بھی اپنے کفن کا انتظام کر لیا ہے۔ بعدِ وفات کے اخراجات کے لیے رقم بھی مختص کرلی ہے۔
عام لوگوں کے لیے یہ ایک مجلسی اور عمومی گفتگو تھی، لیکن خاص مریدین نے فوری طور پر یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ حضرتِ اقدس اب ہمارے درمیان زیادہ دنوں نہیں رہیں گے۔ اس ذات والا صفات کی زندگی کا آخری باب اختتام پذیر ہونے کو ہے۔
سال 2023ء میں آپ کی طبیعت ناساز ہوئی رفتہ رفتہ معمول پر آگئی، لیکن دوبارہ طبیعت بگڑی تو بگڑتی ہی چلی گئی۔ عیادت کے لیے علاقے اور دور دراز کے مریدین، معتقدین، علماے کرام اور دیگر احباب حاضر ہونے لگے۔ خاکسار بھی اپنے دو احباب کے ساتھ عیادت کے لیے حاضرِ بارگاہ ہوا۔ علاج و معالجے کا سلسلہ جاری تھا، اس لیے حضرت کے صاحبزادے اور دیگر احباب بہت محتاط رویہ اپنانے پر مجبور تھے۔ صبح کے وقت ہم لوگ حضرت کے درِ دولت پر پہنچ گئے۔ حضرت کو اطلاع دی گئی۔ ناشتہ اور دوائیں دینے کے بعد حضرت کے لیے گھر کے باہری حصے میں پلنگ ڈالا گیا، اس پر آرام دہ بستر لگایا گیا ،پھر ذرا دیر بعد وھیل چِیَر کی مدد سے حضرت کو باہر لایا گیا۔ ہم سب نے سلام پیش کیا، قدم بوسی کی۔ حضرت نے ہم سب کی خیریت پوچھی، پھر اپنی طبیعت کےاحوال بتانے لگے۔
خاکسار نے اب تک حضرت کا ہنستا، مسکراتا چہرہ دیکھا تھا۔ گھنٹوں ایک پوزیشن میں بیٹھ کر گفتگو کرتے دیکھا تھا۔ ہمہ وقت ہشاش بشاش دیکھا تھا، اب تو عالم یہ تھا کہ چہرہ کمھلایا ہوا ہے، نقاہت کے سبب الفاظ ٹھیک سے ادا نہیں ہو پا رہے ہیں، اس کے باوجود نوازش کا یہ عالم تھا کہ دیر تک ہم لوگوں سے مخاطب رہے۔ دنیا جہان کی باتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ حضرت کی خدمت میں متعین افراد نے ہم سب سے کہا کہ حضرت کا اتنی دیر تک گفتگو کرنا، ان کی صحت کے لیے نامناسب ہے۔ اس لیے آپ لوگ یہاں سے ہٹ جائیں۔ ہم ذرا دور جا کر بیٹھ گئے۔ حضرت آرام فرمانے لگے۔ حضرت کے روےزیبا کو خاکسار دیکھے جا رہا تھا، دل بہت ملول تھا، آنکھوں میں آنسو بھرے تھے، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا جا رہا تھا، امید و بیم کی عجیب سی کیفیت طاری تھی۔ ایسا واضح طور پر محسوس ہونے لگا کہ ہزاروں عقیدت مندوں کے لیے روشنی کا سامان فراہم کرنے والے سورج کی تابناکی سے ایک عالَم محروم ہونے کوہے۔ بادلِ ناخواستہ ہم نے اجازت طلب کی اور رخصت ہوئے۔
ہم واپس تو آگئے، لیکن ہمہ وقت یہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ یہ ملاقات آخری ملاقات نہ ثابت ہو جائے۔ حضرت کی صحت یابی کے لیے علاج معالجے کے ساتھ دعاؤں کا سلسلہ بھی جاری رہا، لیکن مرضیِ مولیٰ ازہمہ اولیٰ۔ اچانک ایک رات یہ الم ناک اور جاں کاہ خبر ملی کہ حضرتِ اقدس اپنے ہزاروں عقیدت مندوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ کر گئے۔ خانقاہِ رشیدیہ کے اس گیارہویں سجادہ نشین نے رمضان المبارک کی 11 تاریخ کو اس دنیا کو الوداع کہا۔ وہ شب اس کے عقیدت مندوں کے لیے شب ِدیجور بن گئی۔ ایسی شب جس کی صبح کی صرف آرزو ہی کی جا سکتی ہے۔ علاقے کے عقیدت مندوں کا قافلہ درگاہ شریف، چمنی بازار پہنچنے لگا، جہاں حضرت کی نمازِ جنازہ ادا ہونی تھی۔ حضرت کے حسبِ منشاتدفین منڈواڈیہہ،بنارس میں ہونی تھی، اس لیے ایک جم ِغفیر وہاں بھی اکٹھا ہونے لگا۔ نعشِ مبارک کے پہنچتے ہی آخری دیدار کے لیے یکے بعد دیگرے عقیدت مند حاضر ہونے لگے۔ حضرت کے روےزیبا کو لوگ دیکھتے جاتے، آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرتے جاتے، پھر اس اندھیرے کا حصہ بنتے جاتے ،جس کو روشن کرنے والا سورج سدا کے لیے غروب ہو چکا تھا۔ جب قافلہ سوے مدفن چلاتو آنسوؤں سےلبریز ہزارہا آنکھوں کے سامنے ایک بڑا سا سوالیہ نشان دکھائی دینے لگا:
اے! تماشا گاہِ عالم روے تو
تو کجا بہرِ تماشا می روی
تدفین کا عمل آخر کار پورا ہوا۔ کھونے والوں نے وہ دولتِ بے بہا کھوئی تھی، جس کا متبادل دور دور تک نہیں تھا۔ ایسے بے شمار افراد تھے، جن کے والدین کا سایۂ عاطفت برسوں پہلے اٹھ چکا تھا، لیکن یتیمی کا داغ انھیں اب لگا تھا۔ سفر و حضر، خلوت و جلوت، ہر جگہ ہمہ وقت حواس پر ایک ہی کیفیت طاری رہتی کہ حضرتِ اقدس کا روے زیبا سامنے آجائے۔ نگاہوں کو ٹھنڈک مل جائے، دلوں کی بے قراری دور ہو جائے۔ ہزارہا دلوں کی یہ حسرت تب بھی تھی اور اب بھی ہے:
تا قیامت شکر گویم کردگارِخویش را
آہ! گرمن باز بینم روے یارِ خویش را
٭٭٭
رابطہ:9891985658