ٹی ایم سی رائے گنج لوک سبھا الیکشن کیوں نہیں جیت پاتی؟

تحریر: محمد شہباز عالم مصباحی
رائے گنج لوک سبھا حلقہ مغربی بنگال کی ایک اہم نشست ہے جس کی سیاسی تاریخ کافی دلچسپ اور متنوع رہی ہے۔ یہاں پہلے کانگریس کا غلبہ رہا، پھر جنتا پارٹی نے ایک بار اپنی جگہ بنائی، اس کے بعد کانگریس نے دوبارہ قدم جمائے، پھر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) نے اس نشست پر قبضہ کیا، اور اب دو بار سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) یہاں جیت رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کبھی بھی اس نشست پر کامیابی حاصل نہیں کر پائی، حالانکہ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی حکومت مضبوط اور مقبول ہے۔ سوال یہ ہے کہ ٹی ایم سی رائے گنج میں الیکشن کیوں نہیں جیت پاتی؟
بدعنوانی اور عوامی ناراضگی:
رائے گنج میں ٹی ایم سی کے زیادہ تر رہنما بدعنوانی میں ملوث ہیں، سوائے وزیر غلام ربانی کے، جو عوام میں مقبول ہیں۔ بدعنوانی کے یہ معاملات عوامی ناراضگی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ یہ رہنما عوام کی خدمت کرنے کے بجائے انہیں مختلف مسائل میں الجھائے رکھتے ہیں۔ انصاف کے معاملات میں دونوں فریقین سے رشوت لی جاتی ہے، اور جو زیادہ رقم دیتا ہے فیصلہ اس کے حق میں کر دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے بعض معاملات میں حق پر ہونے والے افراد کو ڈرا دھمکا کر خاموش کر دیا جاتا ہے۔
سرکاری اسکیموں میں بدعنوانی:
ممتا بنرجی کی حکومت نے “بنگلار باڑی” اسکیم کے تحت بے گھر غریب عوام کو گھر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اسکیم کے تحت فارم مفت بھرنے تھے، لیکن پورے رائے گنج لوک سبھا میں ٹی ایم سی ممبران نے ہر غریب فرد سے فارم بھرنے کے لیے ایک ہزار سے تین ہزار روپے تک لیے۔ اب جب اس اسکیم کی پہلی قسط آ گئی ہے تو ہر فرد سے دس ہزار روپے غیر قانونی طور پر مانگے جا رہے ہیں۔
کرشی منڈی میں دھاندلی:
رائے گنج، گوال پوکھر اور اسلام پور کی کرشی منڈیوں میں دھان کی خریداری میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوتی ہے۔ سرکاری ریٹ کے مطابق 100 کلو کے بجائے 105 کلو دھان لیا جاتا ہے، اور اضافی 5 کلو کی قیمت دلال ہڑپ لیتے ہیں۔ اوسطاً 2000 کوئنٹل دھان روزانہ خریدی جاتی ہے، جس سے دلالوں کو یومیہ 2 لاکھ 32 ہزار روپے کا فائدہ ہوتا ہے۔ ماہانہ یہ رقم 55 لاکھ روپے سے زیادہ ہو جاتی ہے۔
عوامی مسائل کو نظر انداز کرنا:
علاقے میں سڑکوں کی حالت بہت خراب ہے۔ سرکاری اسکیموں سے بنائی گئی سڑکیں چند ماہ میں ٹوٹ جاتی ہیں کیونکہ کام میں بدعنوانی کی جاتی ہے۔ 16 لاکھ روپے کی اسکیم کی سڑک کو صرف 3 لاکھ میں بنا کر باقی رقم ہڑپ لی جاتی ہے۔ گنجریا بازار میں سرکاری بسوں کے نہ رکنے کا مسئلہ بھی حل نہیں کیا جا سکا، حالانکہ عوام کئی بار مطالبہ کر چکے ہیں۔
خوف کا ماحول:
اگر کوئی جوان عوامی مسائل کے خلاف آواز اٹھاتا ہے یا سرکاری دفاتر میں شکایت درج کرتا ہے، تو اسے ڈرا دھمکا کر خاموش کر دیا جاتا ہے۔ ایڈمنسٹریشن اور مقامی رہنما اسے کیس میں پھنسانے کی دھمکی دیتے ہیں۔
نتیجہ:
ترنمول کانگریس کے لیے رائے گنج لوک سبھا نشست جیتنا تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب وہ اپنے رہنماؤں کی بدعنوانی کو ختم کرے، عوامی مسائل کو سنجیدگی سے لے، اور حقیقی ترقیاتی کام کرے۔ عوام کے اعتماد کو بحال کیے بغیر ٹی ایم سی کے لیے اس نشست پر جیتنا ایک خواب ہی رہے گا۔