راہِ ہدایت

کیا واقعی یہ سچی عید تھی؟

مسلم محمود

عید کے لفظی معنی ہیں تیوہار یا جشن جو کہ بار بار آتا ہے۔ عید بھی سال میں دو بار ہمیں اللہ کے انعام کے طور پر میسر ہوتی ہے۔ ایک بار رمضان کے روزوں کے بعد اور دوسری ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی آزمائش اور اس میں ان کی کامیابی کی یاد میں۔  عید الفطر ہر مسلمان کے لیے ایک خوشی کا موقع ہوتا ہے جب کہ وہ رمضان کے پورے مہینہ دن میں روزے رکھتے ہیں اور رات کو عبادت کرتے ہیں۔ یہ مہینہ اللہ کے انعام و اکرام کا مہینہ ہوتا ہے، جس میں فرض نمازوں پر 70 گنا ثواب اور سنت اور نوافل کا فرضوں کے برابر ثواب ملتا ہے۔ ہر نیکی پر 10 گنا ثواب سال کے دوسرے دنوں کے مقابلے میں ۔ یہ مہینہ تربیت کا ہے کہ انسان اللہ کے احکامات کو بجالائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کر کے اللہ کور اضی کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ گناہوں کی معافی مانگے اور اپنے معاملات لوگوں سے درست کرے اور پکا ارادہ کر کے آئندہ کی زندگی گناہوں سے بچ کر اور اللہ کو راضی کر کے گزارے گا۔ ہر اس کام سے بچے گا جس سے اللہ ناراض ہو اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہو۔  غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے عید تو بھر پور منائی۔ اچھے کپڑے پہنے، اچھے کھانے کھائے، گلے مل کر مبارک بادیں دیں لیکن کیا واقعی یہ سچی عید تھی ؟ کیا ہم نے رمضان کا پورا حق ادا کیا، ساری نمازیں وقت پر اور باجماعت پڑھیں ، قرآن سے اپنے تعلق کو جوڑا، قرآن کو سمجھا اور اس کے احکامات کو زندگی کا نصب العین بنایا، کیا روزے میں جھوٹ ، چوری، دھوکا دھڑی، غیبت ، لڑائی جھگڑے اور لغو کاموں اور بری باتوں سے احتیاط کی یا نہیں؟ رشتہ داروں سے صلہ رحمی کی، لوگوں کی غلطیوں کو معاف کیا، ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑا، غریب کی مدد کی، دکھی کی غمگساری کی،بیمار کی عیادت کی، پڑوسیوں کے حقوق ادا کیے، زکوٰہ ادا کی، صدقات کا اہتمام کیا، روزے رکھوائے، صدقۃ الفطرادا کیا تاکہ غریب بھی عید کی خوشی میں شریک ہوسکے، ہر وقت ہر لمحہ اللہ کو راضی کرنےاور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت پر عمل کی جستجو میں ہم رہے یا نہیں؟

 اگر واقعی ہم وہ خوش نصیب ہیں جس نے ہر بات کی فکر کی ، ہر بات کو اپنایا ، صرف اللہ کو راضی کرنے اور اپنی عاقبت کو عاقبت کو سنوار نے اور اللہ کے حضور نیکیوں کے ساتھ حاضر ہونے کی سچی کوشش کی تو ہم خود محسوس کر سکتے ہیں کہ یہ ہماری سچی عید ہے اور یہ اللہ کا ہم پر انعام ہے یا بس ایک تیوہار ؟  رمضان میں ساری سرگرمی اور جوش و خروش کے بعد رمضان کے بعد بھی ایک ماہ کی تربیت کے اثرات ہم پر نمایاں رہنے چاہئیں۔ اگر عید کے دن سے ہم نے نمازوں میں لاپرواہی اور دوسرے معاملات زندگی میں رمضان سے پہلے والا رخ اختیار کر لیا تو سمجھئے کہ ہمارا یہ رویہ اپنے کیے پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے۔  اللہ کے احکامات ایک مسلمان کے لیے ساری زندگی کی ذمہ داری ہیں۔ یہ صرف سال کے ایک مہینے نیک بن جانے کا کام نہیں۔ اللہ جل شانہ سے دعا ہے کہ وہ اس رمضان کے بعد ہماری کمیوں کو دور کر دے اور وہی جذبہ برقرار رکھے جو رمضان میں ہم میں تھا تا کہ ہم جب اللہ کے حضور حاضر ہوں تو کامیاب اور سرخ رو ہوں۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

راہِ ہدایت

وقفی قبرستان میں مزار کی تعمیر: شریعت کی روشنی میں

از: مفتی منظر محسن پورنوی بسم الله الرحمن الرحيم … حامدا و مصليا ومسلمااللهم هداية الحق والصواب حضرت مولانا یونس
راہِ ہدایت

ایمان: انسانیت کی اصل اور بندگی کی بنیاد

مخدوم شاہ طیب بنارسی ایمان تمام نیکیوں کی اصل اورجملہ عبادتوں کی جڑ ہے۔کوئی عبادت وطاعت درستیِ ایمان کے بغیر