بھارت اور پاکستان کے درمیان اقوام متحدہ میں لفظی جنگ

اقوام متحدہ میں بھارت نے پاکستان پر دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام لگایا، پہلگام حملے کا حوالہ دیا، جب کہ پاکستان نے امن مذاکرات کی خواہش ظاہر کی۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف کی تقریر پر بھارت نے سخت ردعمل دیا ہے۔ بھارت کے مستقل مشن میں فرسٹ سیکریٹری پتل گہلوت نے اپنے خطاب میں کہا کہ دنیا نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کے وزیرِاعظم کی “بےتکی ڈرامہ بازی” سنی، جو دہشت گردی کی تعریف اور اس کے جواز کو اپنی خارجہ پالیسی کا حصہ بنائے ہوئے ہیں۔پتل گہلوت نے کہا کہ جھوٹ اور تماشہ بازی حقیقت کو چھپا نہیں سکتے۔ انہوں نے پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے حالیہ حملے کا ذکر کیا اور کہا کہ پاکستان نے سلامتی کونسل میں اس قتلِ عام کی ذمے داری سے ایک دہشت گرد گروہ کو بچانے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وہی پاکستان ہے جس نے ایک دہائی تک اسامہ بن لادن کو پناہ دی، جب کہ دنیا کو یہ یقین دلاتا رہا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی ہے۔
بھارتی سفارتکار نے الزام لگایا کہ آج بھی بھارت میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے پیچھے پاکستان ہی ہے اور یہ حقیقت کسی سے چھپی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر واقعی پاکستان بھارت کے ساتھ امن چاہتا ہے تو اسے فوراً اپنی سرزمین پر قائم دہشت گردی کے تمام مراکز کو ختم کرنا ہوگا اور ان دہشت گردوں کو بھارت کے حوالے کرنا ہوگا جنہیں وہاں کی عدالتیں مطلوب قرار دے چکی ہیں۔دوسری جانب وزیرِاعظم شہباز شریف نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ امن چاہتا ہے اور تمام متنازع امور پر جامع اور بامقصد بات چیت کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ بھارت کے ساتھ کشیدگی میں کمی لانے کا سہرا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جاتا ہے۔ شہباز شریف نے بھارت پر پہلگام واقعے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ پاکستان نے اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی پیشکش بھی کی تھی۔
بھارت ماضی میں کئی مرتبہ یہ واضح کر چکا ہے کہ ٹرمپ نے کسی قسم کے ثالثی کردار ادا نہیں کیے اور یہ معاملہ دو طرفہ سطح پر ہی حل ہوگا۔ دونوں ممالک کے بیانات سے ایک مرتبہ پھر اندازہ ہوتا ہے کہ تعلقات میں کشیدگی بدستور برقرار ہے اور دہشت گردی کا مسئلہ بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔