خبرنامہ

وقف (ترمیمی) بل لوک سبھا میں منظور، آج راجیہ سبھا میں پیش

لوک سبھا میں طویل بحث کے بعد وقف (ترمیمی) بل 288 ووٹوں سے منظور کر لیا گیا، جب کہ 232 اراکین نے اس کی مخالفت کی۔ اپوزیشن نے اسے غیر آئینی قرار دیا، جب کہ حکومت نے اسے وقف املاک کے بہتر انتظام کے لیے ضروری اصلاحات کا حصہ بتایا۔

لوک سبھا میں طویل بحث کے بعد وقف (ترمیمی) بل بدھ کی رات دو بجے ووٹنگ کے بعد منظور ہو گیا۔ اس بل کے حق میں 288 ووٹ ڈالے گئے، جب کہ مخالفت میں 232 ووٹ پڑے۔ اب یہ بل جمعرات یعنی آج راجیہ سبھا میں پیش کیا جائے گا۔بدھ دوپہر کو پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو نے وقف ترمیمی بل لوک سبھا میں پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ایک قانون دوسرے قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔
بل کے پیش ہونے کے بعد بدھ کے روز حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سخت بحث دیکھنے کو ملی۔ کانگریس، سماج وادی پارٹی، ترنمول کانگریس اور انڈیا اتحاد کی دیگر جماعتوں نے اس بل کی مخالفت کی، جب کہ بی جے پی کے اتحادی جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو) اور تلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) نے اس کی حمایت کی۔


اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ یہ وقف بل “غیر آئینی” ہے، جب کہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس ترمیم کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ صرف املاک کے بہتر انتظام کے لیے ہے۔
بل کو لوک سبھا میں پیش کرتے ہوئے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے کہا کہ حکومت مساجد کے انتظام یا مذہبی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔ تاہم، ترنمول کانگریس کے رہنما کلیان بنرجی سمیت کئی اپوزیشن ارکان نے کہا کہ یہ بل آئین کے خلاف ہے۔کانگریس کے رہنما گورو گوگوئی اور ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا کے رکن پارلیمنٹ اروند ساونت نے الزام لگایا کہ اس بل پر جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی میں مناسب بحث تک نہیں ہوئی۔
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اپوزیشن پر “تقسیم کی سیاست” کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ حکومت وقف املاک کے بہتر انتظام اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وقف بورڈ کا کام ان جائیدادوں پر ناجائز قبضہ کرنے والوں کو بے نقاب کرنا اور باہر نکالنا ہے۔
کانگریس کے رکن پارلیمنٹ کے سی وینوگوپال نے بی جے پی حکومت پر مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ جن بلوں کی ضرورت ہے وہ پیش نہیں کیے جا رہے، جیسے کسانوں کی آمدنی دوگنا کرنے سے متعلق بل۔
بی جے پی کے رہنما انوراگ ٹھاکر نے وقف ترمیمی بل کو ایک “امید” قرار دیا اور کہا کہ وقف میں تبدیلی کا وقت آ گیا ہے کیوں کہ یہ بدعنوانی اور ناانصافی کا مرکز بن چکا ہے۔
کانگریس کے رکن پارلیمنٹ عمران مسعود نے کہا کہ یہ بل “آئین کے خلاف” ہے اور حکومت مسلمانوں کی وقف جائیداد پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وقف کمیٹی میں غیر مسلم افراد کو شامل کرنے کا کیا جواز ہے، جب کہ کسی دوسرے مذہبی ٹرسٹ میں غیر مذہبی شامل نہیں کیے جاتے؟
سماج وادی پارٹی کے رہنما ضیاء الرحمن برق نے کہا کہ حکومت وقف بورڈ کے اختیارات محدود کر رہی ہے تاکہ ان کی جائیدادوں پر قبضہ کیا جا سکے، اور یہ مسلمانوں کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسد الدین اویسی نے اس بل کو “مسلمانوں پر حملہ،،قرار دیا اور کہا کہ اس کے ذریعے مساجد اور درگاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
شیرومنی اکالی دل کی ہرسمرت کور بادل نے بی جے پی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سیاست صرف پاکستان، مسلمانوں اور خالصتان کے گرد گھومتی ہے۔
وزیر داخلہ امت شاہ اور سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو کے درمیان بھی تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ اکھلیش یادو نے بی جے پی کے قومی صدر کے انتخاب کے مسئلے کو اٹھایا، جس پر امت شاہ نے ہنستے ہوئے کہا کہ آپ کی پارٹی میں پانچ افراد ہی فیصلے کرتے ہیں، جب کہ بی جے پی میں کروڑوں کارکنان ہیں، اسی لیے ہمیں وقت لگتا ہے۔
یہ بل آج راجیہ سبھا میں پیش کیا جائے گا، جہاں اس پر مزید گرما گرم بحث متوقع ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (AIMPLB) نے بھی بل پر سخت مخالفت کی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (AIMPLB) نے اس بل کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وقف کی جائیدادوں کے تحفظ کے بجائے ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔ بورڈ کا کہنا ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے مذہبی اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش ہے اور اس کے خلاف قانونی راستہ اختیار کیا جائے گا۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

خبرنامہ

لاس اینجلس میں جنگل کی آگ سے بڑے پیمانے پر تباہی، اموات کی تعداد 24ہوئی، امدادی کوششیں جاری

امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لا اینجلس میں ایک ہفتے سے لگی بھیانک آگ مزید 8 جانیں نگل
خبرنامہ

چین کبھی بھی امریکہ کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا

واشنگٹن(ایجنسیاں) صدر بائیڈن نے پیر کو خارجہ پالیسی پر اپنی آخری تقریر میں بڑا دعویٰ کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر