خبرنامہ

وقف (ترمیمی) بل 2025 اب قانون بن گیا

وقف (ترمیمی) قانون 2025 صدر کی منظوری کے بعد نافذ ہو گیا، جس پر سیاسی و سماجی سطح پر شدید مخالفت اور سپریم کورٹ میں قانونی چیلنجز سامنے آئے ہیں۔

وقف ترمیمی بل 2025 کو صدر جمہوریہ محترمہ دروپدی مرمو کی منظوری حاصل ہو گئی ہے، جس کے بعد یہ باضابطہ طور پر قانون بن گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیہ میں کہا گیا:پ’’ارلیمان سے منظور شدہ وقف (ترمیمی) قانون کو 5 اپریل 2025 کو صدر جمہوریہ کی منظوری حاصل ہوئی ہے اور اسے عام معلومات کے لیے شائع کیا جا رہا ہے: وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025۔،،یہ بل جمعہ کے روز راجیہ سبھا میں طویل بحث کے بعد منظور کیا گیا، جس دوران حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے درمیان سخت نوک جھونک بھی دیکھنے میں آئی۔ ایوان بالا میں اس پر تقریباً 14 گھنٹے بحث ہوئی، جس کے بعد 128 ووٹ حمایت میں اور 95 مخالفت میں پڑے۔ اس سے قبل لوک سبھا میں بھی بل پر تقریباً 12 گھنٹے بحث ہوئی، جہاں 288 اراکین نے بل کی حمایت اور 232 نے مخالفت کی۔بل پر بحث کے دوران اپوزیشن کی جانب سے سخت اعتراضات سامنے آئے، جنھوں نے اس قانون کو “مسلم مخالف،، اور “غیر آئینی،، قرار دیا۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ یہ تاریخی اصلاحات ہیں، جو اقلیتوں کو فائدہ پہنچائیں گی اور وقف جائیدادوں کے انتظام میں شفافیت لائیں گی۔
دوسری جانب، ہفتہ کے روز اس قانون کے نفاذ پر روک لگانے کی درخواست کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں دو مزید عرضیاں دائر کی گئیں۔ ان میں سے ایک عرضی دہلی سے عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان نے دائر کی ہے، جب کہ دوسری عرضی “ایسوسی ایشن فار دی پروٹیکشن ان دی میٹرز آف سول رائٹس،،نامی تنظیم نے دائر کی ہے۔اس سے قبل جمعہ کے روز، کانگریس کے رکن پارلیمان محمد جاوید اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اسدالدین اویسی نے بھی سپریم کورٹ میں اس قانون کو چیلنج کرتے ہوئے اسے آئینی دفعات کی خلاف ورزی قرار دیا۔محمد جاوید نے اپنی عرضی میں کہا کہ یہ قانون وقف املاک اور ان کے انتظام پر من مانے انداز میں پابندیاں عائد کرتا ہے، جو مسلم کمیونٹی کی مذہبی خودمختاری کو کمزور کرتا ہے۔وکیل انس تنویر کے ذریعے دائر عرضی میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون ایسے امتیازی ضوابط عائد کرتا ہے، جو دوسرے مذاہب کے اداروں پر نافذ نہیں ہوتے۔
محمد جاوید، جو اس بل پر قائم مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے رکن بھی تھے، نے کہا کہ یہ بل وقف کے قیام کو کسی شخص کے مذہبی عمل کی مدت سے مشروط کرتا ہے، جو ناانصافی ہے۔
اسدالدین اویسی نے اپنی الگ عرضی میں کہا کہ اس بل نے وقف اور ہندو، جین، اور سکھ مذہبی و فلاحی اداروں کو حاصل سکیورٹی کے درمیان امتیاز پیدا کیا ہے۔اس عرضی میں کہا گیا:
“وقف کو حاصل تحفظات کو کم کرنا اور وہی تحفظات دیگر مذاہب کے اداروں کو برقرار رکھنا مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ امتیاز ہے، اور یہ آئین کے آرٹیکل 14 اور 15 کی خلاف ورزی ہے، جو مذہب کی بنیاد پر امتیاز کی ممانعت کرتا ہے۔،،
عام آدمی پارٹی کے رکن اسمبلی امانت اللہ خان نے بھی اپنی عرضی میں اس بل کو آئین کے آرٹیکل 14، 15، 21، 25، 26، 29، 30 اور 300-اے کے تحت حاصل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔دریں اثنا، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (AIMPLB) نے بھی اس نئے قانون کی مخالفت کرتے ہوئے ملک گیر احتجاجی مہم چلانے کا اعلان کیا ہے، جس کا مقصد عوام میں پھیلائی گئی غلط معلومات کا ازالہ اور پرامن جدوجہد کو فروغ دینا ہے۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

خبرنامہ

لاس اینجلس میں جنگل کی آگ سے بڑے پیمانے پر تباہی، اموات کی تعداد 24ہوئی، امدادی کوششیں جاری

امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لا اینجلس میں ایک ہفتے سے لگی بھیانک آگ مزید 8 جانیں نگل
خبرنامہ

چین کبھی بھی امریکہ کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا

واشنگٹن(ایجنسیاں) صدر بائیڈن نے پیر کو خارجہ پالیسی پر اپنی آخری تقریر میں بڑا دعویٰ کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر