نفس کی اصلاح اور صبر کی فضیلت

شیخ عبدالقادر جیلانی
اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی گئی آزمائشوں پر ناراضی کا اظہار کرنا یا ان پر سوال اٹھانا ایمان، توحید، اور توکل جیسی اعلیٰ صفات کو کمزور کر دیتا ہے۔ ایک حقیقی مومن کا دل تقدیری معاملات میں مکمل طور پر اللہ کی رضا پر راضی رہتا ہے اور مشکلات کے وقت نفس کی سرکشی کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ جو شخص اپنی روحانی حالت بہتر کرنا چاہتا ہے، اسے اپنی خواہشات نفس کا مقابلہ کرنا چاہیے تاکہ شیطانی وسوسوں اور برائیوں سے محفوظ رہ سکے۔
نفس کی خواہشات اکثر گمراہی کی طرف لے جاتی ہیں، لیکن جب انسان نفس کو قابو میں رکھ کر اس پر محنت (مجاہدہ) کرتا ہے، تو رفتہ رفتہ نفس اس کی عبادات اور نیکیوں میں معاون بن جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اعلان ہوتا ہے:
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي۔(سورۃ الفجر: 27-30)
ترجمہ: “اے مطمئن روح! اپنے رب کی طرف لوٹ آ، اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔ پس میرے بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔”
یہاں پہنچنے والا شخص نہ صرف اپنی خواہشات سے آزاد ہو جاتا ہے بلکہ اس کا تعلق اللہ کے خلیل، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اور توکل سے جڑ جاتا ہے۔ جب حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈالا گیا، تو انہوں نے اللہ کے علاوہ کسی سے مدد نہیں مانگی۔ ان کا یقین تھا کہ اللہ ان کی حالت کو جانتا ہے اور وہی بہترین مددگار ہے۔ اس توکل کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا:قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ۔(سورۃ الأنبياء: 69)
ترجمہ: “ہم نے کہا، اے آگ! ابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی بن جا۔”
یہی صبر اور توکل ایک مومن کے لیے دنیا و آخرت میں کامیابی کا راز ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں وعدہ فرماتا ہے:إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ۔(سورۃ الزمر: 10)
ترجمہ: “صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بغیر حساب کے دیا جائے گا۔”
مزید فرمایا:إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ۔(سورۃ البقرة: 153)
ترجمہ: “یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔”
اس لیے موت کے بعد کی بیداری سے پہلے ہی انسان کو اپنی اصلاح کر لینی چاہیے۔ وقت سے پہلے بیدار ہو جاؤ، ورنہ وہ وقت آئے گا جب پچھتاوا کسی کام نہ آئے گا۔
نبی اکرم ﷺ نے دل کی اصلاح کی اہمیت پر ارشاد فرمایا: أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ ۔(صحیح البخاری، حدیث: 52)
ترجمہ: “خبردار! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، اگر وہ درست ہو جائے تو پورا جسم درست ہو جاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو پورا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ خبردار! وہ دل ہے۔”
اے اللہ! ہمارے دلوں کو اپنی معرفت اور بندگی کے لیے قائم رکھ اور ہمیں اپنے نیک بندوں کے درجے عطا فرما۔
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ۔( ال عمران: 8)
ترجمہ: “اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ہدایت دینے کے بعد کج روی میں نہ ڈال اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا فرما، بے شک تو ہی عطا کرنے والا ہے۔”
آمین۔
(الفتح الربانی ۔ ماخوذ از مجلس اول)