نائب صدر کا عدلیہ پر تبصرہ، اختیارات کی حد بندی پر نئی بحث

نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ نے عدلیہ کے اختیارات پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے جمہوری اداروں میں مداخلت قرار دیا، جس سے عدلیہ و حکومت کے بیچ اختیارات کی حد بندی پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
نئی دہلی: بھارت کے نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ نے حالیہ دنوں میں عدلیہ کے فیصلوں اور اس کی حدود پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عدلیہ کو آئینی دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے اور جمہوری اداروں کی خودمختاری کا احترام ضروری ہے۔ ان کے مطابق، کچھ عدالتی فیصلے صدر کے اختیارات میں مداخلت کے مترادف ہیں، جو آئینی توازن کے اصولوں کے خلاف ہیں۔نائب صدر کے بیانات اس وقت سامنے آئے جب سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں صدر کو ریاستی بلز پر تین ماہ کے اندر فیصلہ کرنے کی ہدایت دی۔ دھنکھڑ نے اس کو صدر کی خودمختاری میں مداخلت قرار دیا اور کہا کہ اس طرح کے احکامات عدلیہ کو “سپر پارلیمنٹ” بننے کی جانب لے جاتے ہیں۔
انھوں نے عدالتی خودمختاری اور شفافیت پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ اگر کسی عام شہری کے خلاف شواہد ہوں تو فوری کارروائی ہوتی ہے، لیکن ججز کے خلاف مقدمات میں تاخیر ہوتی ہے، جو قانون کی نظر میں عدم برابری کو ظاہر کرتا ہے۔نائب صدر کی اس گفتگو نے دوبارہ “قومی عدالتی تقرری کمیشن (NJAC)” کی اہمیت پر روشنی ڈالی، جسے 2015 میں سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا تھا۔ اس کے تحت ججز کی تقرری میں حکومت کی محدود شمولیت ہوتی، جس سے عدالتی احتساب کو تقویت مل سکتی تھی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ عدلیہ اور دیگر اداروں کے درمیان چیک اینڈ بیلنس کی فضا کو متوازن رکھنے کے لیے تمام فریقین کو ایک دوسرے کی آئینی حدود کا احترام کرنا ہوگا، تاکہ جمہوری نظام کی بنیاد مضبوط رہے۔