امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا محکمہ تعلیم ختم کرنے کا اعلان

صدر ٹرمپ نے محکمہ تعلیم ختم کرنے کا ایگزیکٹو آرڈر جاری کر دیا، تاہم اس فیصلے کو قانونی چیلنجز اور کانگریس کی منظوری درکار ہوگی۔
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے محکمہ تعلیم کو ختم کرنے کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے۔ اس اقدام کو ان کی انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں اور قدامت پسندوں کے دیرینہ مطالبے کی تکمیل قرار دیا جا رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے محکمہ تعلیم کی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ ’ہوش ربا ناکامیاں‘ پیش کر رہا ہے اور وہ جلد از جلد اس محکمے کو ختم کر کے اس سے حاصل ہونے والی رقم ریاستوں کو واپس کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم جتنی جلدی ممکن ہو اسے بند کرنے جا رہے ہیں۔‘
وائٹ ہاؤس نے تسلیم کیا کہ اس ایجنسی کو مکمل طور پر بند کرنے کے لیے کانگریس میں قانون سازی درکار ہوگی۔ تاہم اس اقدام کو پہلے ہی قانونی چیلنجز کا سامنا ہے، کیوں کہ کئی افراد محکمہ تعلیم کی بندش اور اس کے عملے میں بڑے پیمانے پر کٹوتیوں کے خلاف قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کی تقریب میں، جہاں اسکول کے بچے بھی موجود تھے، صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’امریکہ تعلیم پر دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ رقم خرچ کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے طلبہ تعلیمی درجہ بندی میں سب سے نچلے درجے پر ہیں۔‘ وائٹ ہاؤس کے مطابق، انتظامیہ قانونی دائرہ کار کے تحت محکمے کے مختلف حصوں میں کٹوتی کرے گی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اس آرڈر کو ممکنہ طور پر قانونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تقریب کے دوران، صدر ٹرمپ نے محکمہ تعلیم کی سربراہ لنڈا میک میہن کی خدمات کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ وہ آخری سیکریٹری آف ایجوکیشن ہوں گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ میک میہن کے لیے انتظامیہ میں کوئی اور ذمہ داری تلاش کریں گے۔
ٹرمپ کے حکم نامے کے بعد، ریپبلکن سینیٹر بل کیسیڈی نے اعلان کیا کہ وہ محکمہ تعلیم کو بند کرنے کے لیے قانون سازی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم، سینیٹ میں کسی وفاقی محکمے کو بند کرنے کے لیے 60 ووٹ درکار ہوتے ہیں جب کہ ریپبلکنز کے پاس معمولی اکثریت ہے، جس کے باعث اس قانون سازی کی منظوری کا امکان کم نظر آ رہا ہے۔