امریکی وزیرِ خزانہ کا بھارت پر الزام: روسی تیل سے منافع خوری

امریکہ نے بھارت پر الزام لگایا روسی تیل خرید کر مہنگا بیچ کر منافع خوری کر رہا، نئی ٹیکس پابندیاں عائد، مذاکرات معطل۔
امریکہ اور بھارت کے تعلقات میں ایک بار پھر کشیدگی دیکھنے کو ملی ہے۔ امریکی وزیرِ خزانہ اسکاٹ بیسینٹ نے بھارت پر الزام لگایا ہے کہ وہ روس سے سستا خام تیل خرید کر اسے ریفائن کرنے کے بعد مہنگے داموں فروخت کر رہا ہے اور اس طرح غیر معمولی منافع کما رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عمل سراسر “منافع خوری” کے زمرے میں آتا ہے۔بیسینٹ نے یہ بات ایک امریکی ٹی وی چینل پر انٹرویو کے دوران کہی۔ ان کے مطابق روس اور یوکرین جنگ کے بعد روس سے چین کا تیل درآمد صرف تین فیصد بڑھا ہے، جبکہ بھارت کی درآمد میں چالیس فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس عمل سے بھارت کو تقریباً سولہ ارب ڈالر کا اضافی فائدہ ہوا ہے اور اس میں ملک کے چند امیر ترین خاندانوں نے سب سے زیادہ منافع کمایا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ یہ کاروبار جنگ شروع ہونے کے فوراً بعد سے جاری ہے اور امریکہ کے نزدیک یہ بالکل ناقابلِ قبول ہے۔ بیسینٹ نے یہ بھی عندیہ دیا کہ اگر صدر ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان ہونے والی ممکنہ بات چیت میں کوئی معاہدہ نہ ہو سکا تو بھارت پر روسی تیل کی خریداری کے حوالے سے مزید پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔اسی دوران ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت پر نئے تجارتی محصولات عائد کیے ہیں۔ ان میں پچاس فیصد اضافی ٹیکس شامل ہے جس میں روسی تیل کی خریداری پر پچیس فیصد اضافی محصول بھی رکھا گیا ہے۔ یہ اقدامات 27 اگست سے نافذ ہوں گے۔
بھارت نے امریکی اقدام کو غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔ بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اپنے قومی مفاد اور معاشی تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گی۔ وزیرِ مملکت برائے تجارت و صنعت جیتن پرساد نے پارلیمان کو بتایا کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان تجارتی معاہدے پر بات چیت جاری ہے۔ دونوں ممالک اشیائے خوردونوش سمیت غیر حساس زرعی مصنوعات کی تجارت کو آزاد کرنے پر غور کر رہے ہیں۔اطلاعات کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان اب تک پانچ دور کی مذاکرات ہو چکے ہیں، تاہم امریکی وفد نے چھٹے دور کی بات چیت، جو 25 اگست کو ہونا تھی، روک دی ہے۔ اس پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔