امریکہ کا بھارت پر اضافی 25 فیصد ٹیریف لگانے کا اعلان

امریکہ نے روس سے بھارتی تیل خریداری پر اعتراض کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ 27 اگست سے بھارتی درآمدات پر مزید 25 فیصد ٹیریف عائد کیا جائے گا۔
واشنگٹن سے جاری خبروں کے مطابق امریکہ نے بھارت سے آنے والی درآمدات پر مزید 25 فیصد اضافی ٹیریف عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیصلہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک نئے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت کیا گیا ہے اور اس کا اطلاق 27 اگست بروز بدھ سے ہوگا۔امریکی حکومت کا مؤقف ہے کہ بھارت کی جانب سے روس سے مسلسل خام تیل خریدنا واشنگٹن کے لیے قومی سلامتی کا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ اسی پس منظر میں امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن کے ذریعے ایک عوامی نوٹس جاری کیا ہے جس میں نئی شرحِ محصول کے بارے میں تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کا مقصد ان ملکوں پر دباؤ بڑھانا ہے جو ابھی بھی ماسکو کے ساتھ بڑے پیمانے پر تجارتی تعلقات رکھے ہوئے ہیں۔ امریکہ نے واضح کیا ہے کہ روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کو مؤثر بنانے کے لیے اتحادیوں اور شراکت داروں کا تعاون ناگزیر ہے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اگست کے آغاز ہی میں صدر ٹرمپ نے بھارتی درآمدات پر مجموعی ٹیریف کی شرح دگنی کرکے 50 فیصد کر دی تھی۔ اس فیصلے پر نئی دہلی نے سخت ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اقدام “غیر منصفانہ، بلاجواز اور غیر منطقی” ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اس قسم کے فیصلے سے عالمی تجارتی اصولوں کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ بھارت جیسے بڑے تجارتی شراکت دار کے ساتھ تعلقات میں تناؤ پیدا کرے گا۔
ٹیریف کیا ہے؟
ٹیریف دراصل درآمدات پر لگنے والا اضافی ٹیکس یا محصول ہوتا ہے۔ جب کوئی ملک دوسرے ملک سے سامان خریدتا ہے تو اُس پر کسٹم ڈیوٹی یا ٹیریف عائد کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یا تو مقامی صنعت کو تحفظ دینا ہوتا ہے یا پھر سیاسی و معاشی دباؤ ڈالنا۔ بظاہر یہ ٹیکس درآمد کنندہ یعنی درآمد کرنے والی کمپنی ادا کرتی ہے، مگر بالآخر اس کی قیمت صارف کو مہنگے داموں خریداری کی صورت میں چکانی پڑتی ہے۔ماہرین کے مطابق بھارت پر امریکی ٹیریف میں اضافے کا براہِ راست اثر وہاں سے امریکہ جانے والی مصنوعات کی قیمتوں پر پڑے گا۔ اس کے نتیجے میں بھارتی برآمد کنندگان کی مسابقتی صلاحیت کم ہوسکتی ہے جبکہ امریکی خریداروں کو بھی زیادہ ادائیگی کرنا ہوگی۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ کشیدگی برقرار رہی تو نہ صرف دونوں ممالک کی دو طرفہ تجارت متاثر ہوگی بلکہ عالمی مارکیٹ میں بھی عدم استحکام پیدا ہوسکتا ہے۔