خبرنامہ

اردو کسی مذہب کی زبان نہیں: سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخ کا حصہ بن گیا

ہندوستان کی عدالتِ عظمیٰ نے اردو زبان سے متعلق جو فیصلہ سنایا، وہ بلاشبہ ایک تاریخی سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ فیصلہ صرف قانونی لحاظ سے اہم نہیں بلکہ ملک میں اردو کے سماجی اور ثقافتی مقام کی تصدیق بھی ہے۔ برسوں بلکہ صدیوں تک جب کبھی اردو زبان کے ساتھ ناانصافی کی کوشش کی جائے گی، یہ فیصلہ ایک نظیر کے طور پر سامنے رکھا جائے گا۔ لیکن یہ فیصلہ محض ایک قانونی عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک طویل جدوجہد اور اصولی موقف کا ثمر ہے، جس کے پیچھے پاتور شہر کے سابق صدر بلدیہ، سماجی کارکن اور کانگریسی رہنما سید برہان سید نبی کی ثابت قدمی اور محنت شامل ہے۔
سید برہان کا اردو سے لگاؤ صرف جذباتی نہیں بلکہ عملی بھی ہے۔ وہ پاتور کے معروف تعلیمی ادارے ’شاہ بابو اردو ہائی اسکول اینڈ کالج‘ کے منتظم اعلیٰ بھی ہیں۔ انہوں نے نہ صرف تعلیمی میدان میں بلکہ بلدیاتی سطح پر بھی اردو کے وقار کو قائم رکھنے کے لیے جدوجہد کی۔ 1994 میں جب انھوں نے پہلی بار پاتور میونسپل کونسل کا انتخاب لڑا اور کارپوریٹر بنے، تو اسی مدت میں صدر بلدیہ کے منصب پر بھی فائز ہوئے۔ اُس وقت ان کی عمر صرف 40 برس تھی۔ ان کی عوامی مقبولیت اور اصولی سیاست نے انھیں پاتور کا ایک بااثر رہنما بنا دیا۔
اردو سائن بورڈ کا تنازع اس وقت کھڑا ہوا جب 2020 میں میونسپل کونسل کی نئی عمارت کے لیے بورڈ کی زبان پر اختلاف ہوا۔ حالاں کہ 1956 سے پاتور میں اردو اور مراٹھی دونوں زبانوں میں بورڈ لگانے کی روایت رہی ہے، مگر بدلتے سیاسی حالات نے اس مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا۔ 14 فروری 2020 کو میونسپل کونسل کی جنرل کمیٹی نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی کہ نئی عمارت پر بھی مراٹھی کے ساتھ اردو میں بورڈ لگایا جائے گا۔ قرارداد میں یہ بھی درج تھا کہ انتظامیہ اور افسران کی زبان مراٹھی ہی رہے گی، تاکہ کوئی الجھن نہ ہو۔
یہ قرارداد بی جے پی کی کونسلر ورشا تائی باگاڈے کو گوارا نہ ہوئی، اور انھوں نے ضلع کلکٹر کے سامنے اپیل دائر کی۔ کلکٹر نے قرارداد منسوخ کر دی، جو اردو نواز حلقے کے لیے پہلا بڑا دھچکا تھا۔ لیکن سید برہان نے ہمت نہیں ہاری اور کمشنر کی عدالت میں اپیل کی، جہاں فیصلہ ان کے حق میں آیا۔ ورشا تائی نے ناگپور ہائی کورٹ میں اس کے خلاف اپیل کی، مگر عدالت نے اسے خارج کر دیا۔ اس کے بعد انھوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔سپریم کورٹ میں یہ ایک لمبی اور پیچیدہ قانونی لڑائی تھی۔ وقت، پیسہ اور جذبہ تینوں درکار تھے، مگر سید برہان اور ان کے ساتھی پیچھے نہیں ہٹے۔ عدالت نے بالآخر اس معاملے کو مراٹھی لینگویج ڈسٹرکٹ کمیٹی کے حوالے کرتے ہوئے اپیل کو ختم کر دیا۔ ورشا تائی نے ایک مرتبہ پھر کوشش کی اور ہائی کورٹ میں مہاراشٹر حکومت، کلکٹر اور کمشنر کو فریق بناکر دوبارہ کیس دائر کیا۔ ان کی دلیل تھی کہ حکومت نے تمام سرکاری دفاتر پر مراٹھی بورڈ لگانے کی ہدایت دی ہے، اس لیے اردو بورڈ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ لیکن عدالت نے یہ دلیل مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری ہدایت میں اردو یا کسی دوسری زبان پر پابندی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
آخرکار 15 اپریل 2025 کو سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ سنایا جس میں اردو زبان کے آئینی مقام کو تسلیم کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ کسی مذہب کی زبان نہیں بلکہ ہندوستان کی اپنی زبان ہے، جو صدیوں کی مشترکہ تہذیب کی علامت ہے۔اس فیصلے کے بعد سید برہان نے کہا کہ یہ ایک قانونی جیت سے بڑھ کر تہذیبی اور سماجی سطح پر اردو کی شناخت کی بحالی ہے۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

خبرنامہ

لاس اینجلس میں جنگل کی آگ سے بڑے پیمانے پر تباہی، اموات کی تعداد 24ہوئی، امدادی کوششیں جاری

امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لا اینجلس میں ایک ہفتے سے لگی بھیانک آگ مزید 8 جانیں نگل
خبرنامہ

چین کبھی بھی امریکہ کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا

واشنگٹن(ایجنسیاں) صدر بائیڈن نے پیر کو خارجہ پالیسی پر اپنی آخری تقریر میں بڑا دعویٰ کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر