بہار کی سیاست میں آر جے ڈی رہنما کے بیان پر ہنگامہ

بہار میں آر جے ڈی رہنما عبدالباری صدیقی کے بیان پر ہنگامہ، بی جے پی کا اعتراض مگر بڑھتی فرقہ وارانہ سیاست ان کے خدشات کو تقویت دیتی ہے۔
بہار کی سیاست میں انتخابی گہماگہمی کے دوران آر جے ڈی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر عبدالباری صدیقی کے ایک بیان نے ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔ صدیقی نے کہا تھا کہ ہندو بھائیوں کو سیکولرزم، سوشلسٹ سوچ اور آئین کے اصولوں کو زیادہ سمجھانے کی ضرورت ہے تاکہ سماج کو صحیح رخ دیا جا سکے۔ اس بیان پر بی جے پی نے سخت ردعمل ظاہر کیا اور الزام لگایا کہ وہ ہندو برادری کو نشانہ بنا رہے ہیں، لیکن جب صدیقی نے وضاحت پیش کی تو تنازعہ اور بڑھ گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے اور اصل نشانہ وہ مخصوص تنظیم ہے جو ہندو بھائیوں کو شدت پسندی کی طرف دھکیل رہی ہے اور ہندو مسلم کے نام پر سماج کو بانٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔
عبدالباری صدیقی نے وضاحت دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ آئین میں اکثریت اور اقلیت دونوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ وقت کے ساتھ دیکھا گیا ہے کہ اقلیت کئی شعبوں میں پیچھے رہ گئی ہے، اسی لیے حکومت انہیں خصوصی سہولت دیتی ہے۔ اکثریت چونکہ بڑی برادری ہے اور زیادہ طاقت رکھتی ہے اس لیے ان پر زیادہ ذمہ داری ہے کہ وہ سماج کو ایک کریں اور تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کسی خاص مذہب یا برادری پر تنقید نہیں بلکہ اس سیاست پر طنز ہے جو ایک ہی نعرہ لگا رہی ہے: ہندو بمقابلہ مسلمان۔بی جے پی رہنما دانش اقبال اور وزیر سنجے سراؤگی نے صدیقی کے بیان پر سخت حملہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندو برادری کو سیکولرزم سکھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ بھارتی تہذیب کی بنیاد ہی ہم آہنگی اور رواداری پر ہے۔ سراؤگی نے یہ بھی کہا کہ صدیقی دراصل مسلم ووٹ بینک کو لبھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور جو بات ان کے دل میں ہے وہ زبان پر آ گئی۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس تنازعے کے باوجود ملک میں ایسے واقعات بار بار دیکھنے کو ملتے ہیں جو صدیقی کے خدشات کو کسی حد تک درست بھی ثابت کرتے ہیں۔ مختلف ریاستوں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر فرقہ وارانہ کشیدگی، مذہب کے نام پر تشدد اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت انگیز نعرے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ سیاسی فائدے کے لیے سماج کو تقسیم کرنے کی کوشش جاری ہے۔ اگرچہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتی ہیں مگر زمینی حقیقت یہی ہے کہ عوام کو بار بار مذہبی جذبات میں الجھا کر اصل مسائل سے توجہ ہٹائی جاتی ہے۔ عبدالباری صدیقی نے چاہے سخت الفاظ استعمال کیے ہوں لیکن ان کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ اکثریتی طبقہ اگر اپنے اثر و رسوخ کو مثبت رخ میں استعمال کرے تو ملک کے اتحاد کو مزید مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔