سیاسی بصیرت

ترمیم کے بہانے …

ودود ساجد

ایڈیٹر روزنامہ انقلاب

متعدد بار ترمیم شدہ وقف ایکٹ میں مزید جارحانہ ترمیم کے بہانے سے حکومت جو کچھ حاصل کرنا چاہتی ہے اسے خود حکومت بھی چھپانا نہیں چاہتی۔ متشدد تنظیمیں تو بالکل بھی چھپانا نہیں چاہتیں۔ پچھلے 11 برسوں میں ایسا کون سا کام ہے جو وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے کرنے کا ارادہ کیا ہو اور نہ کیا ہو؟

آج کی سطور میں کلیدی طور پر صرف مسلمانوں کے حوالہ سے بات کرنی مقصود ہے۔ لیکن اگر کوئی کسانوں کے قضیہ کو بطور مثال پیش کرنا چاہے تو اس کا مختصر ترین جواب یہ ہے کہ نہ تو کسانوں کی طرح مسلمان احتجاج کرسکتے ہیں اور نہ ہی حکومت نے کسانوں سے کیا گیا وعدہ ابھی تک پورا کیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ مسلمان احتجاج کرنے کا اپنا آئینی‘ قانونی‘ جمہوری اور اخلاقی حق استعمال نہ کریں۔

اعداد و شمار کے سہارے حکومت نے دونوں ایوانوں سے وقف ترمیمی بل 2024-25 پاس کرالیا ہے۔ گزشتہ شب صدر جمہوریہ نے بھی اس پر دستخط کردئے ہیں۔ اب وقف ترمیمی بل 2024-25 نے ایک قانون کی شکل اختیار کرلی ہے ۔ اب اس سے نپٹنے کا ایک راستہ عدالت کا ہے۔۔۔

اگر حکومت مسلمانوں کے خدشات کو کم کرنے یا سرے سے انہیں ختم کرنے کے تعلق سے سنجیدہ ہوتی تو وقف ترمیمی بل کے تعلق سے بنائی جانے والی’مشترکہ پارلیمانی کمیٹی‘ ہی کی حد تک یہ کام ہوچکا ہوتا اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن کو اس کے خلاف اتنی لمبی بحث ہی نہ کرنی پڑتی۔ راجیہ سبھا میں بحث شروع کرتے ہوئے کانگریس کے صدر اور ایوان میں اپوزیشن لیڈر ملکار جن کھڑگے نے کہا بھی تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ بل تو پاس ہوہی جائے گا لیکن ہم اسے یوں ہی لڑائی لڑے بغیر پاس ہونے نہیں دیں گے۔ لہذا یہ کہنا درست ہوگا کہ اپوزیشن نے دونوں ایوانوں میں حکومت کے ارادوں اور اس ترمیمی بل کے خلاف ممکنہ حد تک بہترین لڑائی لڑی۔

اپوزیشن میں بیٹھی ہوئی ہر سیاسی جماعت کے جس رکن نے بھی بحث میں حصہ لیا اس نے بحث کا حق ادا کردیا۔ دلائل کے ساتھ جس زور دار انداز میں سیاسی جماعتوں کے مسلم ممبران نے اپنا موقف رکھا اسی انداز سے ہندو‘ سکھ اور عیسائی لیڈروں نے بھی شاندار بحث کی۔ جمہوری طرز حکومت میں اپوزیشن یہی کرسکتی ہے۔ ایوان کے اندر اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کرسکتی۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ مسلمانوں یا ان کی تنظیموں نے جو کچھ کیا وہ بھی اس سے زائد کچھ نہیں کرسکتیں۔ انہیں لعن طعن کرنا درست نہیں ہے۔

پہلے کی حکومتوں میں یہ کام بھی ہوا ہے کہ متعلقہ طبقات کے احتجاج کے سبب بل کو واپس لے لیا گیا یا کم سے کم مطالبہ کے مطابق اس میں کچھ ترامیم کردی گئیں۔ لیکن اس بار تو خود پارلیمنٹ میں بحث کے دوران پیش کی گئی ایک بھی تجویز یا ترمیم کو قبول نہیں کیا گیا۔ یہی نہیں پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی (جے پی سی) کے اپوزیشن اور مسلم ممبران کے اعتراضات کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی گئی‘ ان کی تجاویز پر غور تک نہیں کیا گیا۔ جے پی سی کے چیرمین جگدمبیکا پال پر یہ الزام بھی عاید کیا گیا کہ انہوں نے میٹنگوں کو غیر جمہوری طور پر منعقد کیا اور اس میں صرف ان ممبروں کی آراء کو اہمیت دی گئی جو بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ان ممبروں کو بولنے نہیں دیا گیا جو اس بل کے خلاف تھے۔

جے پی سی کی ایک میٹنگ میں ایک واقعہ بھی پیش آیا جب ترنمول کانگریس کے ایک رکن پارلیمنٹ پر الزام لگایا گیا کہ اس نے کمیٹی کے چیرمین کی طرف پانی کی بوتل اچھالی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کے اراکین اور خود کمیٹی کے چیرمین اس اہم اشو کے سلسلہ میں کتنے سنجیدہ تھے۔ اس کے بعد کی کئی میٹنگوں کا اپوزیشن اراکین نے بائیکاٹ بھی کیا۔ پھر کیسے اس کمیٹی کی کارروائی اور اس کی سفارشات کو جائز اور غیر جانبدار قرار دیا جاسکتا ہے؟..

جے پی سی کے مطابق اسے کل ایک کروڑ بیس لاکھ آراء موصول ہوئیں‘ متعدد میڈیا رپورٹس نے بھی اس کی تصدیق کی لیکن ملی تنظیموں اور خاص طور پر پرسنل لابورڈ نے دعوی کیا کہ کم سے کم پانچ کروڑ آراء وقف بل میں ترمیم کے خلاف بھیجی گئیں۔ انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے نے‘ جو خود جے پی سی کے ممبر تھے اتنی بڑی تعداد میں بھیجی گئی آراء پر سوال اٹھائے اور کہا کہ اس میں چین یا پاکستان کی آئی ایس آئی کے کردار کی جانچ کی جائے۔ ہرچند کہ اس پر اپوزیشن کے اراکین نے سخت ردعمل کا اظہار کیا لیکن اس سے یہ اندازہ تو ہوہی گیا ہے کہ بی جے پی چاہتی ہی نہیں تھی کہ مسلمان اس بل کے خلاف اپنا موقف کمیٹی کو ارسال کریں۔

سوال یہ ہے کہ کیا 20 کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کی طرف سے محض ایک کروڑ ای میل کا بھیجا جانا کوئی بڑی بات ہے؟ جب ان کے آبا و اجداد کے ذریعہ وقف کی گئی اربوں کھربوں کی جائیدادوں کا معاملہ ہو اور اس کے بہانے سے شریعت اسلامیہ میں کھلی مداخلت کی سازش کی جارہی ہو تو کیا 20 کروڑ مسلمانوں میں سے ایک کروڑ مسلمان بھی متحرک ہوکر میل نہیں بھیج سکتے؟۔ بہرحال میل اتنی بڑی تعداد میں آئے کہ کمیٹی نے لوک سبھا سیکریٹریٹ سے مزید اسٹاف مانگا اور اسے 15لوگ مزید دئے گئے۔

وقف ترمیمی بل 2024-25 کے تعلق سے روزنامہ انقلاب نے بہت سے ماہرین کے مختلف مضامین شائع کئے ہیں۔ ان میں کم و بیش چھ ہزار الفاظ پر مشتمل سب سے تفصیلی مضمون ڈاکٹر سید ظفر محمود کا تھا جو 20 ,21 اور 22 اگست کی اشاعتوں میں تین قسطوں میں شائع ہوا۔ ان مضامین میں اس بل کی تمام خامیوں کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ 4 اپریل کی اشاعت میں معروف ماہر قانون پروفیسر فیضان مصطفی کا مضمون بھی شائع ہوا ہے جس میں اس بل کی مبینہ اچھائیوں اور خامیوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

جے پی سی کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ترمیمی بل میں بی جے پی کی اتحادی جماعتوں کے اراکین کے ذریعہ پیش کردہ 14 ترمیموں کو بھی قبول کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے برخلاف اپوزیشن یا مسلم جماعتوں یا مسلم ممبران پارلیمنٹ کے ذریعہ پیش کی گئی ایک بھی تجویز یا ترمیم قبول نہیں کی گئی۔ دونوں ایوانوں میں بھی مسلم ممبران یا اپوزیشن کے ذریعہ پیش کی گئی ایک بھی ترمیم یا تجویز کو قبول نہیں کیا گیا۔ پھر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے بھی بڑی تعداد میں ان لوگوں کو میٹنگوں میں بلایا جن کا اوقاف سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے۔ اوقاف خالصتاً مسلمانوں کا معاملہ ہے۔ لیکن مختلف میدانوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم طبقات کو بھی بلاکر ان کی رائے لی گئی۔ متشدد تنظیموں کو بھی بلاکر بات کی گئی۔ ایسے میں کمیٹی سے کس خیر کی امید کی جاسکتی تھی؟

مسلمانوں کے احتجاج سے ایک بڑا کام تو ہوا۔ کچھ عرصہ سے ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار اپوزیشن کی تمام سیاسی پارٹیاں اس ایک اشو پر متحد ہوگئیں۔ سب نے پارلیمنٹ میں زور دار اور مدلل بحث میں حصہ لیا۔ سب نے مسلمانوں کے مجموعی موقف کا ساتھ دیا۔۔ گزشتہ11 سالوں میں یہ پہلا موقع تھا جب اپوزیشن کو کسی اشو پر بحث میں کھل کر حصہ لینے دیا گیا۔ کم و بیش تمام ممبران نے وقف بل پر بحث میں حصہ لے کر بحث کا حق ادا کردیا۔ اس میں ہندو بھی شامل ہیں اور مسلمان بھی‘ سکھ بھی اور عیسائی بھی۔ مسلم ممبران نے بھی بحث میں انتہائی مدلل انداز میں گفتگو کی۔ ان میں سید نصیرحسین‘ محمد جاوید’ اسدالدین اویسی اور عمران پرتاپ گڑھی بھی شامل ہیں۔

اس بحث نے بہت سوں کے چہروں پر پڑے نقاب بھی اتار دئے‘ سیاستدانوں کے بھی اور نام نہاد مسلم قائدین کے بھی۔ لکھنے والوں نے بھی خوب لکھا۔بل کی اچھائیاں بھی بیان کیں اور برائیاں بھی۔ لیکن زیادہ تر ماہرین نے اس بل کو نقصان دہ اور خراب بتایا۔ اگر اس بل کے ذریعہ حکومت کو واقعی مسلمانوں کی فلاح مقصود ہوتی تو اس کے کچھ اشارے بھی تو دئے ہوتے۔ کوئی ایک عملی ثبوت بھی تو دیا ہوتا۔ حکومت کے ماضی کے کسی ایک قدم سے بھی حکومت کے اس دعوے یا اس کے خلوص نیت کی تصدیق یا تائید نہیں ہوتی کہ وہ کوئی ایک ایسا کام بھی کرنا چاہتی ہے جس سے مسلمانوں یا پسماندہ مسلمانوں کی فلاح مقصود ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو اس بل کے حق میں متشدد تنظیمیں کبھی کھل کر سامنے نہ آتیں۔ متشدد تنظیموں کیلئے متمول مسلمان اور پسماندہ مسلمان کوئی دو طبقات نہیں ہیں۔ ان کیلئے بس وہ مسلمان ہیں۔

اگر صرف وزیر برائے اقلیتی امور کرن رجیجو کے ہی دعووں پر گفتگو کریں تو بھی یقین کرنے کا کوئی ایک سبب بھی موجود نہیں ہے۔ یہ انہی کی وزارت ہے جس نے مسلم طلبہ و طالبات کیلئے جاری تمام فلاحی اور اسکالر شپ کی اسکیمیں بند کردیں۔ یہاں تک کہ مولانا آزاد ایجوکیشن فائونڈیشن کی تمام اسکیمیں بندکردی گئیں۔ اول تو خود وزیر اعظم سے ہی یہ سوال کیا جانا چاہئے کہ وزارت برائے اقلیتی امور کیلئے انہیں کوئی ایک مسلمان اپنی پارٹی میں کیوں نہیں ملا؟ اس سے پہلے دو دو مسلم وزیر رہے ہیں‘ شاہ نواز اور مختار عباس۔ اب تو لوک سبھا میں کوئی مسلم ممبر ہی نہیں۔

راجیہ سبھا میں جو ایک نامزد مسلم ممبر ہے اس نے وقف بل کے حق میں جو تقریر کی ہے وہ بھی انتہائی کمزور‘ مضحکہ خیز اور بودی تقریر تھی۔ بہرحال کیا عجب کہ اس بل کے بہانے قدرت نے سیاسی محاذ پر مسلمانوں کیلئے ایک راستہ بنایا ہو۔ اب سیاسی اپوزیشن کے اتحاد کے سرخیل مسلمان بن سکتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ دلتوں اور پسماندہ طبقات کے ساتھ دوسری اقلیتیوں کو بھی جوڑیں۔ ہاں متمول اور پسماندہ مسلمانوں کے نام پر تقسیم کی سازش سے بھی ہوشیار رہنا ہوگا۔

تیسرا محاذ عدلیہ کا ہے۔ کانگریس‘ آر جے ڈی‘ مجلس اتحاد المسلمین اور دیگر نے سپریم کورٹ سے رجوع کر ہی لیا ہے۔ ابھی تک سب سے منظم رٹ اسد الدین اویسی نے داخل کی ہے۔ انہوں نے وقف ترمیمی بل کی 54 شقوں کے خلاف تفصیلی عرضی دائر کی ہے۔ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اور معروف ماہر قانون ابھیشیک منوسنگھوی نے ایوان میں بحث کے دوران کہا تھا کہ عدالت میں یہ قانون ٹک نہیں سکے گا۔ سیاسی محاذ پر تامل ناڈو‘ کرناٹک اور کشمیر اسمبلیوں نے پہلے ہی بل کے خلاف قرار دادیں پاس کردی ہیں۔

ملک بھر میں تحریک کے ساتھ ساتھ جو جذبہ بیدار ہوا ہے اسے زندہ رکھنے کی ضرورت ہے لیکن یہ خیال رہے کہ ہر کام آئین‘ قانون‘ اور اخلاقی حدود میں رہ کر کیا جائے۔ جہاں اشتعال پھیلنے کا خطرہ ہو وہاں سے مصلحت کے ساتھ پیچھے ہٹ جانا ہی بہتر ہے۔ اگر عدلیہ میں قانونی لڑائی اور سیاسی محاذ پر اپوزیشن کو متحد رکھنے کا عمل جاری رکھا جائے تو آج نہیں تو کل اس کا بہتر نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔

(شکریہ روزنامہ انقلاب)

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

سیاسی بصیرت

ٹی ایم سی رائے گنج لوک سبھا الیکشن کیوں نہیں جیت پاتی؟

تحریر: محمد شہباز عالم مصباحی رائے گنج لوک سبھا حلقہ مغربی بنگال کی ایک اہم نشست ہے جس کی سیاسی
سیاسی بصیرت

مغربی بنگال میں کیا کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے؟

محمد شہباز عالم مصباحی سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال مغربی بنگال، جو ہندوستان کی سیاست میں