یوکرین کی گواہی : جہانِ نو ہورہا ہے پیدا جہانِ پیر مررہا ہے

ڈاکٹر سلیم خان
ڈونلڈ ٹرمپ یہ دعویٰ کر تے رہے ہیں کہ اگر وہ صدر ہوتے تو یوکرین جنگ شروع ہی نہ ہوتی، اور وہ جلد از جلد روس اور یوکرین کے درمیان امن قائم کروا سکتے ہیں مگر اب ان کی دال نہیں گل رہی ہے۔ انہوں نے ابھی حال میں انکشاف کیا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی حتمی تاریخ مقرر نہیں کی گئی۔ یہ تو سیدھا یوٹرن ہے ۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ اگرچہ پیش رفت جاری ہے، لیکن جنگ ختم کرنے کے لیے ابھی بہت سے مراحل طے کرنا باقی ہیں۔ یہ مراحل پہلے مکمل ہوں گے یا اس سے قبل ان کو اپنا بوریا بستر گول کرکے دفع ہونا پڑے گا یہ کوئی نہیں جانتا ۔ ٹرمپ نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ ہم یوکرین جنگ کے خاتمے کی جانب بڑھ رہے ہیں اور آج اس حوالے سے مفید گفتگو ہوئی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ہم جلد ہی اس مہلک جنگ کو روکنے کے لیے راہ ہموار کر سکیں گے ۔
زیلنسکی کے ساتھ نہایت بدتمیزی کے ساتھ پیش آنے والے ٹرمپ اسی پر خوش ہیں کہ پوتن نے تاحال یوکرین کے ساتھ جنگ بندی کی پیشکش کو مسترد نہیں کیا۔ حالانکہ وہ کہہ سکتے تھے روس نے ہنوز ان کی پیشکش کو قبول نہیں کیا اور اس کی اسے بھاری قیمت چکانی پڑے گی لیکن وہ دن لد گئے جب امریکہ بہادر سوویت یونین کو بھی ایسی دھمکی دیا کرتا تھا۔ یوکرین کو تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ تم جنگ ہار رہے ہو اس لیے ہتھیار ڈال دو مگر روس سے اس لب و لہجے میں گفتگو کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے اس لیے کہہ رہے ہیں ہنوز مذاکراتِ امن کے دروازے کھلے ہیں ۔ ٹرمپ نے اعتراف کرنے کے بعد کہ روس جیسی سخت پابندیاں دنیا کی کسی قوم پر عائد نہیں ان میں ممکنہ نرمی کا عندیہ دیا۔ ٹرمپ کی طرف سے جنگ بندی کی امید روس کے ساتھ بہتر تعلقات بحال کرنے کی ایک کوشش ہے۔ روس پر تو وہ خوب مہربان ہیں مگر یوکرین سے قیمتی دھاتوں کے بعد اب حفاظت کے بہانے بجلی گھروں اور دیگر تنصیبات پر بھی اپنے اختیار کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس طرح دبنے والے کو مسلسل دباتے چلے جارہے ہیں۔
پچھلے دنوں ٹرمپ نے پوتن سے فون پر ایک طویل گفتگو کی اور اس سے متعلق اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ اس کا مقصد یوکرین اور روس کو ان کی درخواستوں اور ضروریات کے مطابق ہم آہنگ کرنا تھا۔ ٹرمپ کے مطابق انہوں نے صدر پوتن سے پرزور دارخواست کی ہے کہ کرسک میں گھرے ہوئے یوکرینی فوجیوں کی جانیں بچائی جائیں۔ انہوں نے اسے دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے ہولناک قتل عام قرار دیا حالانکہ غزہ میں ہونے والی نسل کشی پر ابھی تک ان کی زبان پر قفل لگا ہوا ہے بلکہ وہ اس کی حمایت کررہے ہیں ۔ روس کے آگے اس طرح گڑگڑانے کو ٹرمپ اپنے ایلچی سے روس کے رہنما کی مجوزہ 30 روزہ جنگ بندی پر بات چیت کا نتیجہ بتاتے ہیں ۔ اس کے برعکس پوتن نے اس تجویز پر ”سنجیدہ خدشات “ کا اظہار کردیا کہ کرسک میں ہونے والے واقعات جنگ بندی کی طرف اگلے اقدامات پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔
کریملن نے ویسے تو معاہدے کے حوالے سے ’محتاط طور پر پرامید‘ رہنے کا عندیہ دیا مگر مذاکرات میں پیش رفت سے قبل ٹرمپ اور پوتن کی براہ راست بات چیت پر اصرار کیا ۔روسی ٹیلی ویژن پر اپنے ایک بیان میں پوتن نے بڑی چالاکی سے کہا کہ ، “ہم صدر ٹرمپ کی اپیل سے ہمدردی رکھتے ہیں اور اگر یوکرینی فوجی وہ ہتھیار ڈال دیں تو انہیں زندگی اور باوقار سلوک کی ضمانت دی جائے گی۔ اس بیان میں بین السطور یہ دھمکی موجود ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو وہ قتل عام ہوکر رہے گا جس کا ٹرمپ کو اندیشہ ہے۔ روس کے اس اڑیل رویہ سے پریشان ہوکر زیلنسکی نے روسی رہنما پر الزام عائد کیا کہ وہ جنگ بندی کے اقدام کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔زیلنسکی نے ایکس پر لکھا کہ ، ’’وہ اب جنگ بندی سے پہلے ہی انتہائی مشکل اور ناقابل قبول شرائط طے کرکے سفارتکاری کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں‘‘۔
یوکرین اور روس کے درمیان اس کشیدگی کے بیچ جی سیون کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا تو اس میں روس کو خبردار کیا گیا کہ اگر وہ ’مساوی شرائط پر‘ جنگ بندی کو قبول نہیں کرتا تو اس پر نئی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔فرانس اور جرمنی نے بھی روس پر جنگ بندی کو روکنے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کیا۔ برطانیہ کے وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ روس کی جانب سے صدر ٹرمپ کی جنگ بندی کی تجویز کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا یہی ظاہر کرتا ہے کہ پوتن امن کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں اور یہ سچائی ہے جس کا اعتراف خود امریکی بھی بلا واسطہ کرتے ہیں۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے فاکس نیوز پر ایک انٹرویو میں کہا کہ وٹکوف کے دورے کے بعد امریکہ کو ’کچھ محتاط امید‘ تھی نیز امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کینیڈا میں مغربی طاقتوں کے گروپ کے اجلاس میں کہا کہ دونوں فریقوں کو ”رعایتیں“ دینا ہوں گی۔اس پیش رفت نے ثابت کردیا ہے کہ اب روس کے اوپر امریکہ اور یوروپ کا کوئی رعب داب باقی نہیں ہے۔ اس لیے دانشمندی کا تقاضہ یہی ہے امریکی حکومت اب اپنے آپ کو رستم زماں سمجھنا بند کردے کیونکہ اس کے دن لد چکے ہیں۔ امریکہ بہادر جتنی جلدی یوکرین کی مانند اس حقیقت کا اعتراف کرلے اس میں اس کی اپنی اور دوسروں کی بھلائی ہے۔ ویسے امریکہ تذبذب ہر شہزاد احمد کا یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
میں چاہتا ہوں حقیقت پسند ہو جاؤں
مگر ہے اس میں یہ مشکل حقیقتیں ہیں تلخ
یوکرین نے یوروپ اور امریکہ کے رشتوں میں جو دراڑ ڈالی ہے اس پر بچپن کی ایک کہانی یاد آتی ہے۔ جنگل کے اندر دو بیل یعنی یوں سمجھ لیجیے کہ یوروپ اور امریکہ رہاکرتے تھے ۔ان میں بڑی دوستی تھی۔ وہ آپس میں اتحادو و اتفاق سے رہتے اور ہر مصیبت و آفت کا مل کر مقابلہ کرتے تھے۔پرانے زمانے کا شیر یعنی سوویت یونین جب بھی ان کو آنکھیں دکھاتا تو دونوں نے متحد ہو کر اسے کھدیڑدیتےاور پھر وہ دُم دبا کر بھاگ جاتا۔ اس دوران شیر کے بیٹے روس نے ہاتھی یعنی چین سے دوستی کرلی ۔ ہندوستان ،برازیل اور جنوبی افریقہ جیسے بھیڑ، بکری اور بھیڑئیے کے برکس نامی اتحاد میں شامل ہوکر اپنی پوزیشن مضبوط کرلی نیز جنگل کی لومڑی یعنی یوکرین پر حملہ کردیا ۔ ابتداء میں دونوں بیل لومڑی کی حمایت میں ایک ساتھ تھے مگر آگے چل ایک بیل یعنی امریکہ شیر کا ہمنوا بن گیا اس طرح دونوں بیل ایک دوسرے سے بدظن ہوکر باہم دشمن ہوگئے۔
آگے چل کر جب شیر ایک بیل یعنی یوروپ پر حملہ کرے گا تو دوسرا بیل امریکہ اس کی مدد کو نہیں آئے گا۔بعید نہیں بیلوں کی باہمی لڑائی میں لومڑی چالاکی سے شیر اور ہاتھی کے اتحاد میں شامل ہوجائے۔ شیرکی زبان پر پھر سے خون لگ گیا ہے۔ قوی امکان ہےکہ اب شیرپہلے ایک بیل یعنی یوروپ کا شکار کرے اور پھر دوسرے (امریکہ) کو ترنوالہ بنالے ۔ ٹرمپ امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے کا نعرہ لگا کر وارد ہوئے ہیں ۔ ایسے میں امریکہ دوبارہ عظیم کیسےبنے گا ؟ اس سوال کا جواب ’بیل بدھی ‘ کے مالک صدر ٹرمپ کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ان کا خیال ہے پچھلے 80 سال سے امن قائم کرنے کے نام پر امریکہ کا استحصال ہوا ہے۔ اب ٹرمپ امریکہ کے مفاد میں سودے بازی کرکے اسے پھر سے سپر پاور بنانا چاہتے ہیں ۔ اس بابت ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح دنیا زیادہ خطرناک ہو جائے گی اور امریکہ خود کمزور اور غریب ہوجائےگا۔
ٹرمپ نے 24 فروری کو فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کے ساتھ یوکرین پر بات چیت کے بعد کہا تھا کہ میری پوری زندگی ڈیلز کے گرد گھومتی ہے۔ سوداگری کا یہ انداز عالمی بساط پر تباہی مچا سکتا ہے اس لیے کہ روس اس کا فائدہ اٹھا کر اپنے اوپر سے پابندی اٹھوالے گا۔ امریکہ کے جرمنی اور آسٹریلیا میں موجود فوجی اڈے بند ہوجائیں گے۔ چین سنگا پور اور تائیوان میں اپنی برتری قائم کرلے گا۔ مشرق وسطیٰ میں اگر ایران اور سعودی عرب اسی طرح ساتھ رہیں تو وہاں سے امریکہ کا عمل دخل ختم ہوجائے گا ۔ اس طرح امریکہ تو عظیم نہیں بن سکے گا لیکن یوروپ نے پچھلے 80سالوں میں امریکہ کو ساتھ لے کر نیٹو کے پرچم تلے جو عالمی فتنہ و فساد برپا کررکھا ہے اس پر لگام لگے گی ۔ یہ علامہ اقبال کی اس پیشنگوئی کے مصداق ہے جس میں انہوں برسوں پہلے فرنگی جواریوں کے انجام بد سے عالمِ انسانیت کو آگاہ کردیا تھا ؎
جہانِ نو ہورہا ہے پیدا جہانِ پیر مررہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا تھا قمار خانہ