خیبر پختونخوابنوں میں چھاؤنی کے قریب دو بم دھماکے

خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں چھاؤنی کے قریب دو بم دھماکوں میں 11 افراد جاں بحق اور 30 زخمی ہوگئے، جبکہ سیکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی میں تمام حملہ آور مارے گئے۔ جیش فرسان محمد نامی شدت پسند تنظیم نے حملے کی ذمہ داری قبول کی، تاہم اس کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی۔
بنوں: خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں چھاؤنی کے علاقے میں ہونے والے دو بم دھماکوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 11 ہو گئی جبکہ 30 سے زائد افراد زخمی ہیں۔
کے پی پولیس کے مطابق دھماکے چھاؤنی کے اندر اس وقت ہوئے جب سیکیورٹی فورسز کلیئرنس آپریشن میں مصروف تھیں۔ دھماکوں کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ قریبی دیہات میں گھروں اور مساجد کو نقصان پہنچا، جس کے نتیجے میں عام شہری بھی متاثر ہوئے۔
حملے کی نوعیت اور شدت
ابتدائی اطلاعات کے مطابق شدت پسندوں نے بارود سے بھری گاڑی چھاؤنی میں داخل کرنے کی کوشش کی، تاہم سیکیورٹی فورسز کی فوری کارروائی کے باعث حملہ آور اپنے مکمل منصوبے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ بعض اطلاعات کے مطابق فورسز نے کچھ حملہ آوروں کو داخلے سے قبل ہی نشانہ بنایا۔
دھماکوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان کوٹ براڑہ گاؤں کو پہنچا جہاں متعدد مکانات منہدم ہو گئے۔
شدت پسند تنظیم کی ذمہ داری
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی اطلاعات کے مطابق جیش فرسان محمد نامی شدت پسند تنظیم نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تاہم، اس دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔ اس تنظیم کا تعلق کالعدم دہشت گرد گروہ حافظ گل بہادر سے بتایا جا رہا ہے، جو اس سے قبل بھی پاکستان میں شدت پسند حملے کر چکی ہے۔
ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ
بنوں ایم ٹی آئی کے ترجمان محمد نعمان کے مطابق شہر کے تمام بڑے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور زخمیوں کو فوری طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔
حکومتی ردِ عمل
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے فوری انکوائری کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ ان کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر ڈاکٹر سیف کے مطابق سیکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی کے نتیجے میں تمام حملہ آور مارے گئے، تاہم دھماکوں کی شدت کے باعث قریبی مسجد کی چھت گرنے سے نمازیوں کی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
پسِ منظر
یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب جولائی 2024 میں بنوں میں ایک خودکش حملے میں پاکستانی فوج کے آٹھ اہلکاروں سمیت 11 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ اس حملے میں بھی شدت پسندوں نے بارود سے بھری گاڑی استعمال کی تھی۔
سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے، جبکہ واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔