یقین، اعتماد اور افزودگی:ایران-امریکہ جوہری تنازعہ

ایران نے امریکہ سے مذاکرات کی مشروط آمادگی ظاہر کی ہے، لیکن مستقبل میں حملے نہ ہونے کی واضح ضمانت مانگی ہے، جب کہ جوہری افزودگی پر مؤقف برقرار رکھا ہے۔
ایران کے نائب وزیر خارجہ، ماجد تخت روانچی نے کہا ہے کہ اگر امریکہ دوبارہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا خواہاں ہے تو اُسے یہ یقین دہانی کرانی ہوگی کہ آئندہ وہ کوئی اور حملہ نہیں کرے گا۔انھوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ثالثوں کے ذریعے پیغام بھیجا کہ وہ اس ہفتے ایران کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرنا چاہتی ہے، لیکن اس اہم سوال پر کہ کیا مستقبل میں مزید حملے ہوں گے یا نہیں، امریکہ کی جانب سے کوئی واضح مؤقف پیش نہیں کیا گیا۔ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری پروگرام کے حوالے سے بات چیت جاری تھی، مگر رواں ماہ کے آغاز میں اسرائیل نے ایران کے جوہری مراکز اور عسکری تنصیبات کو نشانہ بناتے ہوئے حملے کیے۔ ایران نے بھی میزائل حملوں کے ذریعے جواب دیا۔ بعد ازاں 21 جون کو امریکہ بھی اس تنازع میں براہ راست شامل ہو گیا اور ایران کے تین جوہری مراکز پر بمباری کی۔
تخت روانچی نے کہا کہ ایران پرامن مقاصد کے لیے یورینیم کی افزودگی پر قائم رہے گا اور اُن الزامات کو مسترد کیا کہ ایران خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کو تحقیقاتی منصوبوں کے لیے جوہری مواد دستیاب نہیں ہو رہا تھا، اس لیے وہ اس حوالے سے خودکفیل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام کی سطح اور اس کی استعداد پر گفتگو ہو سکتی ہے، لیکن اگر کوئی ملک کہے کہ آپ کو بالکل بھی افزودگی نہیں کرنی چاہیے اور اگر آپ ایسا کریں گے تو ہم بمباری کریں گے، تو یہ جنگل کا قانون ہے۔13 جون کو اسرائیل نے ایران کے جوہری اور عسکری مقامات پر حملے کیے، جن میں ایرانی کمانڈرز اور سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل کا کہنا تھا کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے قریب ہے۔ ایران نے اس کے جواب میں اسرائیل پر حملے کیے اور یہ جھڑپیں تقریباً 12 دن جاری رہیں۔ اسی دوران امریکہ نے فردو، نطنز اور اصفہان کے جوہری مراکز پر بمباری کی۔
یہ واضح نہیں کہ امریکی حملوں سے ایران کے جوہری پروگرام کو کتنا نقصان پہنچا۔ تخت روانچی نے کہا کہ وہ درست اندازہ نہیں لگا سکتے۔ تاہم بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے سربراہ رافیل گروسی نے کہا کہ اگرچہ نقصان بہت زیادہ ہوا ہے، لیکن یہ پروگرام مکمل طور پر تباہ نہیں ہوا۔ اس کے برعکس، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ایران کے جوہری مراکز مکمل طور پر تباہ کر دیے گئے ہیں۔رافیل گروسی نے کہا کہ ایران کے پاس چند مہینوں میں دوبارہ یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت موجود ہو سکتی ہے، لیکن تخت روانچی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے۔ایران اور IAEA کے درمیان تعلقات میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ گزشتہ بدھ ایرانی پارلیمنٹ نے IAEA کے ساتھ تعاون معطل کرنے کی قرارداد پیش کی۔ ایران نے ایجنسی پر امریکہ اور اسرائیل کی طرف داری کا الزام بھی لگایا۔
صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر دوبارہ یہ شواہد ملے کہ ایران کا یورینیم افزودگی کا پروگرام تشویش ناک سطح تک پہنچ گیا ہے، تو امریکہ دوبارہ بمباری پر غور کرے گا۔تخت روانچی نے کہا کہ انھیں علم نہیں کہ مذاکرات کب دوبارہ شروع ہوں گے یا ایجنڈا کیا ہوگا، لیکن ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ مذاکرات جلد شروع ہو سکتے ہیں۔ ایران کے نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا مذاکرات کے دوران پھر سے ایسے حملے ہوں گے یا نہیں۔ ان کے مطابق ایسی کسی بات چیت کے لیے باہمی اعتماد ضروری ہے اور امریکہ کو اس بارے میں واضح مؤقف اختیار کرنا ہوگا۔جب اُن سے پوچھا گیا کہ اگر ایران کو پابندیوں میں نرمی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی پیشکش کی جائے تو کیا وہ اپنے جوہری پروگرام پر نظرِثانی کریں گے؟ اس پر تخت روانچی نے جواب دیا: “ہم ایسی کسی پیشکش پر کیوں متفق ہوں؟”انھوں نے دہرایا کہ ایران کا 60 فیصد یورینیم افزودہ کرنے کا پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے تھا۔
2015 کے جوہری معاہدے کے تحت ایران کو صرف 3.67 فیصد افزودگی کی اجازت تھی اور فردو مرکز میں پندرہ سال تک کوئی افزودگی نہ کرنے کی شرط رکھی گئی تھی۔ لیکن 2018 میں صدر ٹرمپ نے یہ کہتے ہوئے معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی کہ یہ معاہدہ ایران کو ایٹم بم بنانے سے نہیں روک سکتا۔ اس کے بعد امریکہ نے دوبارہ پابندیاں نافذ کیں، جس کے ردِعمل میں ایران نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 2021 میں فردو میں 60 فیصد تک افزودگی شروع کر دی۔ IAEA کے مطابق یہ مقدار 90 فیصد کی سطح سے کچھ کم تھی، جو کہ ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔
جب تخت روانچی سے پوچھا گیا کہ یورپی ممالک اور مغربی دنیا ایران پر اعتماد کیوں نہیں کرتے، تو انہوں نے بعض یورپی رہنماؤں پر امریکہ اور اسرائیل کی حمایت کا الزام لگایا۔ ان کے مطابق جو ممالک ایران کے جوہری پروگرام پر تنقید کرتے ہیں، انہیں امریکہ اور اسرائیل کے رویے کی بھی مذمت کرنی چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے، تو خاموش رہنا بہتر ہوگا، لیکن حملوں کی حمایت نہ کریں۔تخت روانچی نے کہا کہ امریکہ نے ثالثوں کے ذریعے پیغام دیا ہے کہ وہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو نشانہ نہیں بنانا چاہتا اور نہ ہی ایران میں حکومت کی تبدیلی کی خواہش رکھتا ہے۔اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایرانی عوام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی آزادی کے لیے آیت اللہ خامنہ ای کے خلاف کھڑے ہوں۔ تاہم صدر ٹرمپ نے حالیہ جنگ بندی کے بعد کہا کہ وہ ایسا نہیں چاہتے۔اس پر تخت روانچی نے کہا: “ایسا نہیں ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ ایرانی شہری حکومت کی بعض پالیسیوں پر تنقید کریں، لیکن جب بات غیر ملکی جارحیت کی آتی ہے تو پوری قوم متحد ہو جاتی ہے۔”
انھوں نے کہا کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ اسرائیل جنگ بندی پر قائم رہے گا یا نہیں، لیکن ایران اس پر عمل کرتا رہے گا، جب تک اس پر دوبارہ کوئی حملہ نہ ہو۔ ایران کے عرب اتحادی ممالک مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ قطر کو اس جنگ بندی میں ثالثی کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔تخت روانچی نے اختتام پر کہا: “ہم جنگ نہیں چاہتے۔ ہم مذاکرات اور سفارت کاری کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہمیں ہر لمحے چوکنا رہنا ہوگا تاکہ دوبارہ کسی حملے سے حیران نہ ہونا پڑے۔”