ٹرمپ کی نئی پالیسی:بھارت دور، پاکستان قریب

ڈونالڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت میں بھارت سے ان کا رویہ سرد ہوتا جا رہا ہے، جس کی وجہ پاکستان سے بڑھتی قربت، ثالثی کا انکار، اور بھارت کی خودمختار پالیسی مانی جا رہی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے صدارتی دور (2017-2021) میں ان کے اور نریندر مودی کے درمیان جذباتی اور گرم جوش تعلقات دیکھنے کو ملے۔ “ہاؤڈی مودی” اور “نمستے ٹرمپ” جیسے تقاریب نے اس دوستی کو عالمی سطح پر نمایاں کیا، لیکن 2025 میں ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد بھارت کے بارے میں ان کا رویہ خاصا سرد اور تنقیدی ہو چکا ہے۔ اس تبدیلی کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں۔بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ جنگ کے بعد جب سیزفائر ہوا تو ٹرمپ نے اس میں ثالثی کا دعویٰ کیا۔ پاکستان نے اس کا خیرمقدم کیا جب کہ بھارت نے ابتدا میں خاموشی اختیار کی اور بعد میں دو ٹوک الفاظ میں اسے مسترد کر دیا۔ اس انکار سے ٹرمپ ناراض ہوئے، کیوں کہ وہ خود کو عالمی سیاست میں طاقتور ثالث اور “ڈیل میکر” سمجھتے ہیں، اور چاہتے تھے کہ بھارت بھی ان کی کوششوں کو تسلیم کرے جیسا کہ پاکستان نے کیا۔
ساتھ ہی ٹرمپ کا جھکاؤ پاکستان کی طرف زیادہ نظر آ رہا ہے۔ انھوں نے آئی ایم ایف سے پاکستان کو 2.4 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکیج دلوایا، جس پر بھارت نے اعتراض کیا تھا کہ یہ رقم دہشت گردی کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود امریکہ نے اس پیکیج کی حمایت کی، جسے بھارت نے پاکستان نوازی کے طور پر دیکھا۔ یہ وہی پاکستان ہے جسے امریکہ ماضی میں دہشت گردوں کا گڑھ سمجھتا رہا ہے، لیکن بدلتے حالات میں اسے خطے میں نئی حکمت عملی کے لیے اہم مانا جا رہا ہے۔
ٹرمپ کو بھارت کی آزاد خارجہ پالیسی سے بھی گلہ ہے۔ بھارت نے روس-یوکرین جنگ میں غیر جانبدار رویہ اپنایا اور روس سے سستا تیل خریدنا جاری رکھا، جس سے امریکی پالیسیوں کو جھٹکا لگا۔ بھارت کا روس کے ساتھ دفاعی تعلق، چین کے ساتھ تجارت میں اضافہ، اور BRICS و SCO جیسے پلیٹ فارمز میں فعال کردار بھی امریکہ کو پریشان کرتا ہے، جو چاہتا ہے کہ بھارت مکمل طور پر اس کے کیمپ میں شامل ہو۔
تجارتی محاذ پر بھی دونوں ملکوں کے درمیان خفگی بڑھی ہے۔ ٹرمپ نے بھارت کو “ٹیرِف کنگ” قرار دیا کیوں کہ بھارت نے کئی امریکی مصنوعات پر بھاری محصولات عائد کیے ہیں، جیسے ہارلے ڈیوڈسن موٹرسائیکل، بادام اور سیب وغیرہ۔ 2025 میں امریکی انتظامیہ نے بھارتی برآمدات پر اضافی 10 فیصد ٹیکس لگایا، جس پر بھارت نے جوابی اقدام کی دھمکی دی۔ بھارت کی خود کفالت کی پالیسی اور مقامی مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے اقدامات سے امریکی کمپنیاں متاثر ہو رہی ہیں، جس پر ٹرمپ کھل کر برہمی ظاہر کر چکے ہیں۔ انھوں نے ایپل کے سی ای او کو مشورہ دیا کہ وہ بھارت میں مزید فیکٹریاں نہ لگائیں بلکہ امریکی سرزمین پر سرمایہ کاری کریں۔
ٹرمپ بھارت کی خودمختار خارجہ و معاشی پالیسی کو امریکی بالا دستی کے لیے ایک چیلنج سمجھتے ہیں۔ بھارت کی جانب سے G20، I2U2، اور علاقائی اقتصادی معاہدوں میں سرگرمی بھی امریکہ کو مکمل حمایت نہ دینے کے مترادف لگتی ہے۔ کثیرالجہتی اتحادوں میں بھارت کی شمولیت اور امریکہ کے متوازی تعلقات کا قیام، ٹرمپ کی “امریکہ فرسٹ” سوچ سے میل نہیں کھاتا۔مسئلہ کشمیر پر ٹرمپ کی ثالثی کی پیش کشیں پہلے بھی بھارت نے مسترد کی تھیں اور حالیہ سیزفائر پر بھی بھارت نے ان کی مداخلت کو ماننے سے انکار کر دیا۔ وزیراعظم مودی نے واضح کر دیا کہ پاکستان سے اب بات صرف دہشت گردی اور مقبوضہ کشمیر کے تناظر میں ہوگی، جو امریکی خواہشات کے برعکس ہے۔
یہ تمام عوامل مل کر یہ واضح کرتے ہیں کہ ٹرمپ اب بھارت کو اتنی ترجیح نہیں دے رہے جتنی پہلے دی جاتی تھی اور ان کا رویہ خاصا سخت ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان سے بڑھتی قربت، بھارت کی خودمختار پالیسیوں سے ناراضی، اور بین الاقوامی سطح پر اپنی حیثیت منوانے کی خواہش،یہ سب مل کر موجودہ صورتحال کی بنیاد بنے ہیں۔ آنے والے وقت میں یہ تعلقات کس رخ پر جاتے ہیں، یہ عالمی سیاست کے منظرنامے پر گہرا اثر ڈالے گا۔