خبرنامہ

ٹرمپ کا مشرقِ وسطیٰ میں نیا بحران: امن کا دعویدار جنگ کے دہانے پر

2025 کے آغاز میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خود کو ’’امن کا علمبردار‘‘ کہہ کر دوبارہ اقتدار سنبھالا تھا، لیکن اب وہ ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ کے سلگتے ہوئے تنازعے میں امریکہ کو براہِ راست جھونک چکے ہیں۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی میں امریکی مداخلت نے عالمی سطح پر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ایران پر امریکی حملے کے فوراً بعد صدر ٹرمپ نے قوم سے خطاب کیااور اس کارروائی کو ایک “بڑی کامیابی” قرار دیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ قدم ایک دیرپا امن کی راہ ہموار کرے گاجس کے نتیجے میں ایران کا جوہری طاقت بننے کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔
وائٹ ہاؤس میں نائب صدر جے ڈی وینس، وزیر خارجہ مارکو روبیو اور وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ کے ہمراہ خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے ایران کو خبردار کیا کہ اگر تہران نے اپنا جوہری پروگرام ترک نہ کیا، تو مستقبل میں امریکی حملے “زیادہ ہلاکت خیز اور بہت آسان” ہوں گے۔صدر کے پراعتماد انداز کے باوجود عالمی سطح پر اس مداخلت کو شدید خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خبردار کیا ہے کہ اس اقدام سے پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہےجو پہلے ہی تناؤ سے دوچار ہے۔اگر ایران نے جوابی کارروائی کی، جیسا کہ رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے عندیہ دیا تھا، تو امریکہ بھی ایک اور ردعمل دینے پر مجبور ہوگا۔ ایسے حالات میں، دونوں فریق ایسی صورتِ حال میں بندھ سکتے ہیں جہاں واپسی کا راستہ باقی نہ رہے۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ صدر ٹرمپ نے جمعرات کو ایران کو دو ہفتوں کی مہلت دی تھی، لیکن محض دو دن بعد ہی کارروائی کا اعلان کر دیا۔ کیا یہ مہلت محض ایک چال تھی؟ یا پھر ایران کے ساتھ خفیہ مذاکرات ناکام ہو چکے تھے؟ ان سوالات کے جواب ابھی سامنے نہیں آئے۔حملوں کے بعد صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا اور قوم سے خطاب میں پرامن مستقبل کی بات کی، لیکن حالات کی سنگینی کچھ اور ہی کہانی سناتی ہے۔ اسرائیل نے اگرچہ ایران کی فوجی صلاحیت کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہےمگر ایران کے پاس اب بھی طاقتور وسائل موجود ہیں، جن میں فردو کا جوہری مرکز شامل ہے۔
امریکی صدر کو امید ہے کہ ایران، ان حملوں کے بعد مذاکرات کی میز پر زیادہ نرمی دکھائے گا، لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جو ملک اسرائیلی حملوں کے باوجود پیچھے نہیں ہٹا، وہ امریکی بمباری کے بعد بھی شاید ہتھیار نہ ڈالے۔اگر امریکی حملوں میں ایران کے سخت حفاظت میں موجود جوہری تنصیبات کو تباہ نہیں کیا جا سکا، تو امریکہ پر ایک اور حملے کا دباؤ بڑھ جائے گا۔ اور یہ دباؤ صرف فوجی نہیں بلکہ سیاسی بھی ہوگا۔امریکہ کے اندر بھی اس فیصلے پر شدید تنقید ہوئی ہے، حتیٰ کہ صدر ٹرمپ کی اپنی جماعت کے ’’امریکہ فرسٹ‘‘ نظریے کے حامی بھی اس اقدام سے نالاں نظر آتے ہیں۔ نائب صدر وینس نے اب تک ایک محتاط خارجہ پالیسی کی وکالت کی ہےاور ٹرمپ کے غیرمداخلتی موقف کا دفاع کیا ہے۔اگر یہ حملہ محض ایک محدود کارروائی تھی تو شاید ٹرمپ اپنی سیاسی حمایت کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جائیں، لیکن اگر یہ تنازع کسی بڑی جنگ میں تبدیل ہوتا ہے، تو ’’امن کا پیغامبر‘‘ کہلانے والے صدر کو اندرونی بغاوت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

خبرنامہ

لاس اینجلس میں جنگل کی آگ سے بڑے پیمانے پر تباہی، اموات کی تعداد 24ہوئی، امدادی کوششیں جاری

امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لا اینجلس میں ایک ہفتے سے لگی بھیانک آگ مزید 8 جانیں نگل
خبرنامہ

چین کبھی بھی امریکہ کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا

واشنگٹن(ایجنسیاں) صدر بائیڈن نے پیر کو خارجہ پالیسی پر اپنی آخری تقریر میں بڑا دعویٰ کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر