خبرنامہ

ٹرمپ کا دعویٰ: بھارت-پاکستان جنگ ہم نے روکی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک سنگین فوجی تصادم ہو رہا تھا، جسے امریکہ نے روکا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس دوران دونوں ملک ایک دوسرے پر حملے کر رہے تھے اور لڑاکا طیارے گرائے جا رہے تھے۔ ٹرمپ نے کہا کہ ان کے اندازے کے مطابق پانچ جنگی طیارے مار گرائے گئے تھے، مگر انھوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ طیارے کس ملک کے تھے۔یہ بیان انھوں نے جمعہ کی رات وائٹ ہاؤس میں ریپبلکن ارکانِ کانگریس کے ساتھ عشائیے کے دوران دیا۔ ٹرمپ نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی تھی، اور امریکہ نے تجارتی دباؤ کے ذریعے اس کشیدگی کو ختم کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر دونوں ممالک جنگ کرتے یا جوہری حملے کرتے تو امریکہ ان کے ساتھ کوئی تجارتی معاہدہ نہ کرتا۔
اس سے پہلے بھی پاکستان نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے بھارت کے پانچ لڑاکا طیارے مار گرائے، لیکن بھارت نے ہمیشہ ان دعوؤں کو مسترد کیا ہے۔ مئی کے آخر میں بھارت کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان سے ایک انٹرویو میں اس بارے میں سوال کیا گیا۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان کے اس دعوے کی تصدیق کی جا سکتی ہے کہ انھوں نے ایک سے زیادہ بھارتی طیارے گرائے؟ جنرل چوہان نے جواب دیا کہ اصل سوال یہ نہیں کہ کتنے طیارے گرے، بلکہ یہ کہ ایسا کیوں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے اپنی حکمتِ عملی کو بہتر بنایا اور پھر دور تک موجود اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔جب ان سے دوبارہ سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان کا چھ طیارے گرانے کا دعویٰ درست ہے، تو انھوں نے اسے بالکل غلط قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تعداد سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بھارت نے کیا سبق سیکھا اور آگے کیا کیا۔
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سیزفائر کسی تیسرے ملک کی مداخلت سے نہیں، بلکہ مکمل طور پر دو طرفہ بنیاد پر ہوا۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ اس وقت خود اس کمرے میں موجود تھے جب امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے 9 مئی کو وزیر اعظم نریندر مودی سے بات کی تھی۔ ان کے مطابق مودی پر کسی قسم کی دھمکی یا دباؤ کا کوئی اثر نہیں ہوا اور انہوں نے واضح طور پر جواب دینے کا عندیہ دیا تھا۔جے شنکر نے کہا کہ بھارت کی پالیسی ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ پاکستان سے تمام معاملات دو طرفہ طور پر طے کیے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی رات پاکستان نے حملہ کیا اور بھارت نے فوری طور پر جواب دیا۔ بعد میں امریکی سینیٹر مارکو روبیو نے انہیں فون کرکے بتایا کہ پاکستان بات چیت کے لیے تیار ہے۔
جون میں جی-7 کانفرنس کے دوران وزیر اعظم مودی نے صدر ٹرمپ سے فون پر بات کی۔ اس ملاقات کی تفصیلات بتاتے ہوئے بھارت کے خارجہ سیکریٹری وکرم مسری نے کہا کہ وزیر اعظم نے ٹرمپ کو صاف طور پر بتایا کہ پاکستان کے ساتھ سیزفائر مکمل طور پر دو طرفہ تھا اور اس میں امریکہ کے ساتھ کسی تجارتی معاہدے کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ٹرمپ کئی مرتبہ یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کرائی اور ممکنہ جوہری جنگ روکی۔ پاکستان نے ان کے ان دعوؤں کی تائید کی تھی۔ اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ واشنگٹن نے سیزفائر میں اہم کردار ادا کیا۔پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے اس وقت کہا تھا کہ انہوں نے پانچ بھارتی جنگی طیارے گرائے، جن میں تین رافیل، ایک ایس یو-30، ایک مگ-29 اور ایک ہیرون ڈرون شامل ہے۔ بھارت نے ان دعوؤں پر فوری طور پر کوئی ردِ عمل نہیں دیا، لیکن بعد میں انہیں مکمل طور پر مسترد کر دیا۔
اسی دوران جکارتہ میں بھارتی سفارت خانے میں تعینات دفاعی اتاشی کیپٹن شیو کمار نے ایک یونیورسٹی سیمینار میں کہا تھا کہ ابتدائی مرحلے میں سیاسی قیادت کی کچھ پابندیوں کی وجہ سے بھارتی فضائیہ پاکستانی فوجی اہداف پر حملہ نہیں کر سکی، جس کی وجہ سے بھارت کو کچھ طیارے کھونے پڑے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعد میں بھارت نے اپنی حکمتِ عملی بدلی، دشمن کے فضائی دفاع کو پہلے نشانہ بنایا، اور زمین سے مار کرنے والے میزائلوں سے حملے کیے۔ان کے اس بیان پر بعد میں بھارتی سفارت خانے کی طرف سے وضاحت جاری کی گئی کہ ان کے الفاظ کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا اور میڈیا میں ان کی باتوں کی غلط تشریح کی گئی۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

خبرنامہ

لاس اینجلس میں جنگل کی آگ سے بڑے پیمانے پر تباہی، اموات کی تعداد 24ہوئی، امدادی کوششیں جاری

امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لا اینجلس میں ایک ہفتے سے لگی بھیانک آگ مزید 8 جانیں نگل
خبرنامہ

چین کبھی بھی امریکہ کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا

واشنگٹن(ایجنسیاں) صدر بائیڈن نے پیر کو خارجہ پالیسی پر اپنی آخری تقریر میں بڑا دعویٰ کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر