ٹرمپ کا بھارت پر 50٪ ٹیکس، روس تعلقات برقرار

ٹرمپ نے بھارت پر روسی تیل خریدنے پر ٹیکس 50٪ کر دیا، مگر ماہرین کے مطابق بھارت آزاد خارجہ پالیسی نہیں چھوڑے گا۔
جنوری میں ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری مرتبہ امریکی صدر کا عہدہ سنبھالا تو روس کے حوالے سے ان کا نرم رویہ سب کو حیران کرنے لگا۔ یوکرین جنگ پر اقوامِ متحدہ میں کئی مواقع پر امریکہ نے روس کا ساتھ دیا۔ فروری میں جب یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی وائٹ ہاؤس پہنچے تو ٹرمپ نے ان کے ساتھ خاصا سرد مہری والا رویہ اختیار کیا۔یہ صورتحال دیکھ کر یہ تاثر پیدا ہوا کہ بھارت اور روس کی دوستی پر ٹرمپ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ مگر حال ہی میں انہوں نے بھارت پر روس سے تیل خریدنے کی پاداش میں درآمدی ٹیکس بڑھا کر 50 فیصد کر دیا۔ روسی میڈیا میں اس پر بحث جاری ہے کہ آیا ٹرمپ اس اقدام سے بھارت کو روس سے دور کر سکتے ہیں یا نہیں۔روسی سیکیورٹی کونسل کے مشیر اینڈریو سوشینتسوف کا کہنا ہے کہ بھارت آزاد خارجہ پالیسی ترک نہیں کرے گا اور امریکی دباؤ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔ ان کے مطابق یہ ٹیکس روسی تیل کے بہانے لگایا گیا ہے، اصل وجہ بھارت کی تیزی سے بڑھتی عالمی حیثیت ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت چین کے خلاف اس کا مکمل اتحادی بنے، مگر اس طریقے سے یہ ممکن نہیں ہوگا۔
امریکی حکمتِ عملی پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جب واشنگٹن کا دباؤ کامیاب نہیں ہوتا تو وہ خاموشی سے فیصلے بدل دیتا ہے۔ برازیل کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ وہاں مداخلت سے الٹا مزاحمت بڑھ گئی۔6اگست کو ٹرمپ نے بھارت پر اضافی ٹیکس کا اعلان کیا، اور اگلے ہی دن بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول ماسکو پہنچے، جہاں انہوں نے صدر پیوٹن سے ملاقات کی۔ اسی دوران دونوں ملکوں نے تیل، نایاب معدنیات، طیاروں کے پرزوں اور ریلوے تعاون جیسے منصوبوں پر بات چیت کی۔بھارت روس سے اس وقت 35–40 فیصد خام تیل درآمد کر رہا ہے اور زیادہ تر تجارت مقامی کرنسیوں میں ہو رہی ہے، جس سے ڈالر پر انحصار کم ہو گیا ہے۔ 2021–22 میں باہمی تجارت 13 ارب ڈالر تھی جو 2024–25 میں بڑھ کر 68 ارب ڈالر تک جا پہنچی۔
روس کے سابق صدر دیمتری میدویڈیو نے ٹرمپ کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بار بار الٹی میٹم دینا جنگ کے خطرے کو بڑھاتا ہے۔ ٹرمپ نے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے انہیں ناکام صدر قرار دیا۔اب 15 اگست کو ٹرمپ اور پیوٹن کی ملاقات متوقع ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ممکن ہے اس اجلاس میں یوکرین کے مفادات کو نظرانداز کر کے کوئی معاہدہ کیا جائے، اور اگر یوکرین نے مخالفت کی تو امریکہ اس پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔