ٹرمپ نے نئے ٹیرف کا اعلان کیا، لیکن روس فہرست سے غائب

صدر ٹرمپ نے نئے ٹیرف کا اعلان کیا مگر روس کو فہرست سے خارج رکھا، کیوں کہ اس پر پہلے سے امریکی پابندیاں نافذ ہیں اور تجارتی تعلقات محدود ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں نئی تجارتی ڈیوٹی (ٹیرف) فہرست کا اعلان کیا، تاہم حیرت انگیز طور پر اس فہرست میں امریکہ کے بڑے تجارتی شراکت داروں میں شامل روس کا نام شامل نہیں ہے۔ امریکی میڈیا ادارے “ایکسئیس،، کے مطابق، وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ نے وضاحت کی ہے کہ روس پر پہلے سے ہی امریکی پابندیاں عائد ہیں، اسی لیے دونوں ممالک کے درمیان تجارت نہ ہونے کے برابر ہے۔روس کے علاوہ کیوبا، بیلاروس اور شمالی کوریا کے نام بھی ٹیرف لسٹ میں شامل نہیں کیے گئے۔ البتہ شام جیسے ملک، جو امریکہ کے ساتھ معمولی سطح پر تجارت کرتے ہیں، اس فہرست کا حصہ بنائے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق، شام نے گزشتہ برس امریکہ کو 1 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی مصنوعات برآمد کی تھیں۔
یاد رہے کہ 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد امریکہ نے روس پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اگرچہ صدر ٹرمپ روس کے لیے نسبتاً نرم رویہ رکھتے ہیں اور اس جنگ کو ختم کرنا ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اس سلسلے میں روس کے اعلیٰ حکام اس ہفتے واشنگٹن میں امریکی حکام سے مذاکرات کر رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ صدر پوتن کی جانب سے جنگ بندی پر عدم رضامندی کے بعد، ٹرمپ نے روس سے تیل خریدنے والے ممالک پر 50 فیصد ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی دی تھی۔
روس کے سرکاری میڈیا نے دعویٰ کیا کہ روس کا ٹیرف لسٹ میں شامل نہ ہونا اس لیے نہیں کہ امریکہ اسے کوئی خصوصی حیثیت دے رہا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ روس پر پہلے ہی سخت مغربی پابندیاں نافذ ہیں۔ سرکاری ٹی وی چینل “روسیا 24کے مطابق، “یہ ٹیرف نہ لگنے کا مطلب رعایت نہیں بلکہ پہلے سے عائد پابندیوں کا تسلسل ہے۔،، دوسرے چینل “روسیا 1” نے کہا کہ روس کا نام شامل نہ ہونے پر مغرب میں کئی ممالک کو مایوسی ہوئی ہے۔
روس نواز میڈیا نے امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ کے بیان کا حوالہ دیا، جنھوں نے کہا، “ہم روس اور بیلاروس کے ساتھ تجارت نہیں کرتے کیوں کہ ان پر پابندیاں عائد ہیں۔،،تاہم امریکی دفترِ تجارت کے مطابق، 2024 میں امریکہ نے روس سے ساڑھے تین ارب ڈالر کی درآمدات کیں، جن میں کھاد، نیوکلیئر فیول اور دھاتیں شامل تھیں۔
کچھ روسی میڈیا اداروں نے اس فہرست کا مذاق بھی اڑایا، جیسا کہ “این ٹی وی” نے کہا کہ ٹرمپ امریکہ کے یورپی اتحادیوں سے غلاموں جیسا سلوک کر رہے ہیں۔ ایک اور چینل “زویزدہ ٹی وی” نے نشاندہی کی کہ ٹیرف لسٹ میں آسٹریلیا کے غیر آباد جزائر “ہَرد آئی لینڈ” اور “میکڈونلڈ آئی لینڈ” بھی شامل ہیں، اور طنزیہ کہا، “لگتا ہے کچھ پینگوئنز کو بھی 10 فیصد ٹیرف دینا ہوگا۔”
دوسری طرف، یوکرین کو امریکہ کو برآمدات پر 10 فیصد ٹیرف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یوکرین کی نائب وزیر اعظم یولیا سویریدینکو نے کہا کہ ان نئے ٹیرف کا سب سے زیادہ اثر چھوٹے یوکرینی برآمد کنندگان پر پڑے گا۔ انھوں نے واضح کیا کہ یوکرین امریکہ کے ساتھ بہتر تجارتی معاہدوں کے لیے کام کر رہا ہے۔ان کے مطابق، 2024 میں یوکرین نے امریکہ کو 87 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی مصنوعات برآمد کیں جبکہ امریکہ سے 3 ارب 40 کروڑ ڈالر کی اشیا درآمد کیں۔ انھوں نے کہا، “یوکرین ایک قابل اعتماد اتحادی ہے اور مناسب تجارتی شرائط دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہوں گی۔”
اگرچہ امریکہ اور یوکرین کے درمیان تجارتی حجم زیادہ نہیں، پھر بھی امریکہ نے روس کے خلاف جنگ کے لیے یوکرین کو قابلِ ذکر امداد فراہم کی ہے۔ صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ امریکہ نے اب تک 300 سے 350 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں، جب کہ امریکی محکمہ دفاع کے مطابق یہ رقم 182.8 ارب ڈالر ہے، جسے یورپ میں فوجی تیاریوں اور اسلحہ کے ذخائر کی بحالی کے لیے مختص کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکہ یوکرین کے معدنی وسائل تک رسائی کے بدلے جنگ بندی کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔