روایتی تعلیم خطرے میں: مذہبی ادارے بندش کی دہلیز پر

امریکہ کے دیہی علاقوں میں قائم مذہبی کالجز طلبہ کی کمی، بڑھتے اخراجات اور مالی وسائل کی قلت کے باعث بندش یا انضمام کی راہ پر ہیں، جس سے دیہی طلبہ کے لیے تعلیم کے مواقع محدود ہو گئے ہیں۔
امریکہ کے دیہی علاقوں میں قائم مذہبی کالجز ایک گہرے مالی بحران کا سامنا کر رہے ہیں، جو طلبہ کی تعداد میں کمی، بڑھتے ہوئے اخراجات اور محدود مالی وسائل جیسے عوامل کا نتیجہ ہے۔ اس مالی دباؤ نے نہ صرف کئی اداروں کو بند ہونے پر مجبور کیا ہے بلکہ متعدد تعلیمی ادارے انضمام یا دیگر اشتراکی طریقوں سے اپنی بقا کی کوشش کر رہے ہیں۔سنہ 2020 کے بعد سے اب تک امریکہ میں 77 غیر منافع بخش کالجز اور جامعات بند ہو چکی ہیں یا دیگر اداروں میں ضم ہو چکی ہیں۔ ان میں سے نصف سے زائد تعلیمی ادارے مذہبی وابستگی رکھتے تھے۔ مزید یہ کہ 30 سے زائد کالجز کو امریکی محکمہ تعلیم نے مالی لحاظ سے غیر ذمہ دار قرار دیا ہے، جن کی مالی حالت انتہائی نازک ہے، کیونکہ ان کے پاس نقدی ذخائر کم جبکہ قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔
کئی اداروں کی حالت تشویشناک ہو چکی ہے۔ مثلاً، شمالی کیرولائنا میں واقع سینٹ آگسٹین یونیورسٹی میں طلبہ کی تعداد 1100 سے گھٹ کر صرف 200 رہ گئی ہے اور ادارہ اپنی منظوری سے بھی ہاتھ دھو چکا ہے۔ نیویارک کا سینٹ فرانسس کالج بھی مالی مشکلات کے باعث اپنے عملے کا ایک بڑا حصہ فارغ کر چکا ہے۔اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے بعض ادارے انضمام اور شراکت داری کے طریقے اختیار کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، اوہائیو کے اُرسلین کالج نے پنسلوانیا کی گینن یونیورسٹی کے ساتھ انضمام کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح، الاباما کے اسپرنگ ہل کالج اور میسوری کی راک ہرسٹ یونیورسٹی نے مشترکہ تعلیمی پروگرام شروع کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، اگرچہ دونوں ادارے اپنی انتظامی خودمختاری برقرار رکھیں گے۔
یہ تعلیمی ادارے دیہی علاقوں کے ان طلبہ کے لیے ایک اہم سہارا تھے جو محدود مالی وسائل کے باوجود اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ان میں خاص طور پر وہ نوجوان شامل ہیں جو پہلی نسل کے کالج طلبہ ہیں یا جن کے خاندان کی آمدنی کم ہے۔ اب ان اداروں کی بندش کے باعث ان کے لیے معیاری تعلیم تک رسائی مزید مشکل ہو گئی ہے۔اگرچہ کچھ مذہبی کالجز اب بھی مستحکم ہیں اور ان خاندانوں کے لیے پرکشش ہیں جو روایتی اقدار اور محفوظ تعلیمی ماحول کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن مجموعی طور پر، دیہی مذہبی کالجز کو زندہ رہنے کے لیے نئی مالیاتی حکمت عملیوں، تعلیمی شراکتوں اور جدید ماڈلز کو اپنانا ہوگا۔ بصورت دیگر، یہ ادارے بتدریج تعلیمی منظرنامے سے غائب ہوتے چلے جائیں گے۔