چھندواڑہ میں زہریلا کف سیرپ،11 بچوں کی ہلاکت پر ایف آئی آر درج

چھندواڑہ میں زہریلا کف سیرپ پینے سے 11 بچے جاں بحق، ڈاکٹر پروین سونی اور شریسن فارماسیوٹیکل پر ایف آئی آر درج۔
مدھیہ پردیش کے چھندواڑہ ضلع کے پرساڑیا بلاک میں مبینہ طور پر زہریلا کف سیرپ پینے کے بعد 11 بچوں کی موت کے معاملے میں پولیس نے ایک بڑی کارروائی کی ہے۔ سرکاری شکایت پر ڈاکٹر انکِت سہلام نے 5 اکتوبر کو ایف آئی آر درج کروائی، جس کے تحت سرکاری بچوں کے ماہر ڈاکٹر پروین سونی، سیرپ بنانے والی کمپنی شریسن فارماسیوٹیکل کے منتظمین اور دیگر ذمہ دار افراد کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق مرنے والے 11 بچوں میں سے 10 پرساڑیا بلاک کے رہائشی تھے، اور ڈاکٹر پروین سونی اسی علاقے میں بطور سرکاری شِشو روگ ماہر تعینات تھے۔ ایف آئی آر کی تفصیل کے مطابق اگست اور ستمبر 2025 کے دوران پانچ سال سے کم عمر بچوں کو عام سردی، کھانسی اور بخار کی شکایت پر سی ایچ سی پرساڑیا لایا گیا۔ ان میں سے زیادہ تر بچوں کو ڈاکٹر سونی نے Coldrif کف سیرپ سمیت دیگر ادویات تجویز کیں۔ چند دن بعد ان بچوں میں پیشاب بند ہونے، چہرے پر سوجن، اور الٹی جیسی علامات ظاہر ہوئیں، بعد ازاں ان کی گردے فیل ہونے کی تصدیق ہوئی۔
چند مریض بچوں کو ناگپور کے اسپتالوں میں منتقل کیا گیا، مگر وہاں علاج کے دوران 10 بچوں کی جان بچائی نہ جا سکی۔ پہلی موت 4 سالہ شیوم رٹھور کی 4 ستمبر کو ہوئی جبکہ آخری سانحہ 2 سالہ یوگیتا ٹھاکرے کی 4 اکتوبر کو پیش آیا۔اس افسوسناک واقعے کے بعد مڈيا پردیش حکومت نے یکم اکتوبر کو تمل ناڈو حکومت سے کف سیرپ تیار کرنے والی کمپنی کے خلاف کارروائی کی سفارش کی۔ تمل ناڈو کے ڈرگ کنٹرول محکمے نے تحقیق کے بعد تصدیق کی کہ شریسن فارماسیوٹیکل کی تیار کردہ Coldrif کف سیرپ میں خطرناک کیمیکل کی آمیزش پائی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سیرپ میں ڈائی ایتھیلین گلیکول (Diethylene Glycol) کی مقدار 48.6 فیصد وزن/حجم تھی، یعنی ہر 100 ملی لیٹر سیرپ میں تقریباً 48.6 گرام یہ زہریلا مادہ موجود تھا، جو انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک سمجھا جاتا ہے۔
بھوپال کی ڈاکٹر ہرشیتا شرما کے مطابق، ڈائی ایتھیلین گلیکول اور ایتھیلین گلیکول عام طور پر کُولنٹ (antifreeze) کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ یہ دونوں مادے زہریلے ہیں اور خاص طور پر بچوں کے جسم پر تباہ کن اثر ڈالتے ہیں، جن سے گردے، جگر اور اعصابی نظام شدید متاثر ہوتا ہے۔ایف آئی آر میں واضح کیا گیا کہ متعلقہ افراد جانتے تھے کہ یہ کف سیرپ بچوں کے لیے مضر ثابت ہو سکتا ہے، اس کے باوجود اسے مارکیٹ میں فروخت کیا گیا اور کم عمر مریضوں کو دیا گیا۔ ان الزامات کی بنیاد پر پولیس نے ڈاکٹر پروین سونی، شریسن فارماسیوٹیکل کے ذمے داران اور دیگر افراد کے خلاف بی این ایس (BNS) کی دفعہ 105 (غیر ارادتی قتل)، 276 (ادویات میں ملاوٹ) اور ڈرگ اینڈ کاسمیٹکس ایکٹ 1940 کی دفعہ 27(اے) کے تحت مقدمہ درج کر کے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔یہ واقعہ نہ صرف مڈيا پردیش بلکہ پورے ملک کے لیے ایک سنگین وارننگ ہے کہ دوا سازی کے عمل، جانچ اور فروخت کے نظام کو مزید سخت اور شفاف بنایا جائے تاکہ مستقبل میں کسی معصوم کی جان ایک زہریلے کف سیرپ کے ہاتھوں ضائع نہ ہو۔