سیاسی بصیرت

یہ جنگ ہماری ہے اور اسے ہمیں خود ہی لڑنا ہے

پرویز حفیظ

7؍ اکتوبر 2023ء میں اسرائیل پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے چند گھنٹوں کے اندر امریکہ، برطانیہ، فرانس، اٹلی، کینیڈا اور درجنوں ممالک نے نہ صرف حماس کی اس حرکت کی سخت مذمت کی بلکہ اسرائیل کی مکمل حمایت کا اعلان بھی کردیا۔ حماس کو ٹھکانے لگانے کے بہانے جب بنجامن نیتن یاہو کی صہیونی فوج نے غزہ پٹی کے نہتے شہریوں جن میں معصوم بچوں کی بڑی تعداد شامل تھی کا قتل عام شروع کردیا تو مغربی ممالک نے اس قتل عام کو بھی یہ کہہ کر جائز ٹھہرایا کہ’’ اسرائیل کو اپنے دفاع کو پورا حق ہے۔‘‘
7؍مئی 2025ء  کو جب ہندوستانی فوج نے مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں واقع دہشت گرد اڈوں پر بمباریاں کیں تو کیادنیا کے کسی ملک نے کہا کہ بھارت نے جو کیا ٹھیک کیا؟ 22؍اپریل کو پہلگام کی سر سبز وادیوں میں پاکستانی دہشت گردوں نے جب 25؍بے گناہ سیاحوں اور ایک جیالے کشمیری گائیڈ کو موت کے گھاٹ اتاردیا تو کیا دنیا کے کسی ملک نے کھل کر ہندوستان کی حمایت کا اعلان کیا؟ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک نے دہشت گردی کی مذمت تو کی لیکن کسی نے براہ راست یا بالواسطہ طور پر اس غیر انسانی جرم کے ارتکاب کے لئے پاکستان کی مذمت نہیں کی۔ اور تو اور ہمارے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے سبھی نے ہندوستان اور پاکستان دونوں کو صبر و ضبط سے کام لینے کا مشورہ دے دیا۔  سوائے اسرائیل کے کیا کسی اور ملک نے آپریشن سیندور کی تعریف کی اور اسے پاکستان کی ناجائزکارستانی کے جواب میں ہمارا  جائز ردعمل قرار دیا؟ چار روزہ جنگ کے دوران ترکی اور آذربائیجان جیسے ممالک نے کھل کر پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ دنیا کے 193؍ ممالک میں سے کیا کسی ایک چھوٹے سے ملک مثلاً نیپال نے بھی یہ اعلان کیا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ کھڑا ہے؟ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور پانچویں بڑی معیشت ہیں؛ہم امریکہ اور مغرب کی آنکھوں کا تارا ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے۔یہ وہی سرزمین ہے جہاں اسامہ بن لادن ایک طویل عرصے تک چھپا رہا تھا۔ پاکستان کا ایسا منفی امیج ہونے کے باوجود کسی مغربی ملک نے اسے معتوب کیوں نہیں ٹھہرایا؟ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ گلوبل ساؤتھ کے ممالک میں ہندوستان کا اثر و رسوخ بے پناہ بڑھا ہے تو پھر کسی بھی ایشیائی یا افریقی ملک نے پاکستان کی بزدلانہ حرکت کے  خلاف ہمارے مشن سیندور کی حمایت کا اعلان کیوں نہیں کیا؟
 وزیر اعظم نریندر مودی پچھلے11؍ برسوں میں تقریباً80؍سے زیادہ غیر ملکی دورے کرچکے ہیں۔ بی جے پی اور مودی بھکت یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے ہیں کہ مودی جی نے اقوام عالم میں بھارت کا وقار اور دبدبہ بڑھایاہے۔ دنیا کے تمام اہم لیڈروں اور خصوصاً امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ مودی جی کے ذاتی مراسم ہونے کے دعوے بھی ہم تواتر سے سنتے آئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی مودی جی کی سیاسی بصیرت، سفارتی قابلیت اور ذاتی کرشمہ کی وجہ سے ساری دنیا میں بھارت کا ڈنکا بج رہا ہے تو حالیہ جنگ  میں  اس کی گونج کیوں نہیں سنائی دی؟  ہماری خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کی کامیابی تب سمجھی جاتی جب کسی ایک ملک نے بھی اپنے سربراہ کو نئی دہلی بھیج کر ہمارے موقف کی حمایت اور ہمارے کاز کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا ہوتا۔
اس وقت ہندوستان کے 50؍  سے زیادہ اراکین پارلیمنٹ اور سابق سفارتکار دنیا کے مختلف ممالک میں گھوم گھوم کر  پاکستان کو بے نقاب  اور آپریشن سیندور کی کامیابی کی تفصیل سے باخبر کررہے ہیں۔ کانگریس لیڈر جے رام رمیش کے مطابق ہندوستان کی خارجہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ہے اور  غیر ممالک میں ہندوستانی وفود بھیجنے کا فیصلہ مودی حکومت کی damage control کی کوشش ہے۔
 امریکی اسکالر  C. Christine Fair کا خیال ہے کہ بھارت کو اگر اپنے حق میں عالمی بیانیہ تشکیل دینا تھا تواسے نمائندوں کے وفود کو فوجی آپریشن سے قبل بھیجنا چاہئے تھا۔ اسلام آباد اگر اپنے لیڈروں کو غیر ملکوں کی راجدھانیوں میں بھیج کر’’ بھارت کی جارحیت‘‘ کا دکھڑا روئے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ ہم ایشیا کی سب سے بڑی دو طاقتوں میں سے ایک ہیں۔ دنیا سے ہمدردی کے طلب گار بن کر کیا ہم اپنی کمزوری کا اعتراف نہیں کررہے ہیں؟
 چلیں فرض کرلیتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کو اپنا ہمنوا بنانے کے لئے ہندوستانی نمائندوں کو بھیجنا ضروری تھا لیکن کیا ہم نے یہ سوچا ہے کہ بات صرف پاکستانی کی شر انگیزی اور دہشت گردی اور ہندوستان کی عسکری کامیابی تک محدود نہیں رہے گی۔ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔کیا کشمیر ایک بار پھر دنیا بھر میں موضوع سخن نہیں بن جائے گا؟ کیایہ بات ہمیں کسی قیمت پر منظور ہوگی؟
ہم دراصل ایک کنفیوژڈ قوم ہیں۔ جب بین الاقوامی ادارے ہماری جمہوریت اور پریس کی آزادی کی پامالی پر تنقید کرتے ہیں اور جب امریکی حکومت ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں پر ہورہے مظالم کے لئے  ہماری سرزنش کرتی ہے تو ہم   ان کے مشاہدات کو   جانبدارانہ اور متعصبانہ قرار دے کر  انہیں مسترد کردیتے ہیں۔اور اگرنیو یارک ٹائمز یا دی اکانومسٹ میں ہندوستان کو تیزی سے بڑھتی معیشت قرار دیا جاتا ہے تو ہم جشن منانے لگتے ہیں۔اسی لئے ہمیں پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ آیا ہمیں بین الاقوامی رائے کی پروا ہے یا نہیں ہے۔ سینئر صحافی شیکھر گپتا نے صحیح کہا ہے کہ اگر ہمیں اس کی پروا نہیں ہے تو پھر ہمیں عوام کے پیسوں پر ایم پیز کو غیر ممالک میں چھٹیاں منانے کے لیے بھیج کر یہ’’ تماشہ‘‘کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
 ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہندوستان ایک خود مختار د اور طاقتور ملک ہے اورہم آتم نربھر قوم ہیں۔ ہمیں کسی بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے قرضے یا کسی عرب ملک سے امداد کے لئے لائن میں لگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک ہیں جس کے پاس ہزاروں سال قدیم ثقافتی اور تہذیبی وراثت ہے۔ ہمیں اپنی سرحدوں کی حفاظت اور اپنے شہریوں کے تحفظ کا پورا اختیار ہے۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ پاکستانی ملٹری ہندوستان کو کمزورکرنے کے لیے دہشت گردی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ لیکن ہمارے جانبازوں نے اس بار مریدکے اور بہاول پور میں دہشت گردٹھکانوں کو تباہ کرکے اور ایک سو دہشت گردوں کو ٹھکانے لگاکراسے درست سبق سکھا دیا ہے۔ پاکستان کو ہمارا پیغام یہ ہے کہ مستقبل میں اس کے ہر پراکسی وار کا جواب بھارت وار سے دے گا۔ اسی لئے مجھے یہ بات ناقابل فہم لگتی ہے کہ ہمیں گھوم گھوم کر دنیا کو اپنے اس موقف کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے؟یہ ہماری جنگ ہے اور اسے ہمیں خود ہی لڑنا ہے۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

سیاسی بصیرت

ٹی ایم سی رائے گنج لوک سبھا الیکشن کیوں نہیں جیت پاتی؟

تحریر: محمد شہباز عالم مصباحی رائے گنج لوک سبھا حلقہ مغربی بنگال کی ایک اہم نشست ہے جس کی سیاسی
سیاسی بصیرت

مغربی بنگال میں کیا کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے؟

محمد شہباز عالم مصباحی سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال مغربی بنگال، جو ہندوستان کی سیاست میں