سائنسی دنیا

خلائی تحقیق میں خواتین کا کردار

محمد تہلیل عالم

ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ۔ نئی دہلی

سماج میں عورت کا وجود ایک مکمل اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔سماج کی ترقی و بلندی میں عورت کی شراکت نا صرف اہم ہے بلکہ تیز رفتار ترقی اور پائیدار مستقبل کے لیے ان کی حصے داری کو یقینی بنائے رکھنا بھی ضروری ہے۔آج عالمی سطح پر عورتیں زندگی کے ہر شعبے میں نئی بلندی چھو رہی ہیں۔یہ خواتین توانائی،دور اندیشی، متحرک، جوش اور عزم کے ساتھ تمام چیلنجوں کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔سائنسی پروگرام سے لے کر خلائی مہم تک،دوائی اور ویکسین کی ترقی سے لےکر نئے سائنسی ایجادات کے مورچوں پر کامیابی کی نئی کہانی لکھتے ہوئے دیش و دنیا کی ترقی و تحفظ میں اپنا رول ادا کر رہی ہیں۔
ایک جائزے کے مطابق خلائی سائنس کی ترقی کے ساٹھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے مگر خواتین کی شمولیت دوسرے شعبوں کے بہ نسبت اس میں حیران کن رہا ہے مردوں کہ مقابلے میں خواتین کا تناسب صرف 10 فی صد ہے۔خلائی اداروں،خلائی صنعت،ایرو اسپیس انجینئر نگ،خلائی فورسیز اور کمانڈر،اور قیادت و رہنمائی کے تمام شعبوں میں نمایاں صنفی فرق موجود ہے۔فلپائن،برطانیہ اور یوکرین کے خلائی ادارے اس دائمی عدم نمائندگی کے مسئلے سے کسی حد تک مستثنی ہیں۔اور جو خواتین ایسے پروگرام میں شامل ہیں بھی تو ان میں سے اکثر انتظامی اور پروجیکٹ مینجمنٹ وغیرہ جیسے عہدوں پر فائز ہیں بجائے آپریشنز اور قیادت کے۔ اس نا برابری کے کئی وجوہات ممکن ہو سکتے ہیں جیسے سماجی تفاوت، خواتین کا بطور پائلٹ ان کی قابلیت کو قبول نہ کرنا،یہ بھی خدشہ ظاہر کیا گیا کہ خواتین کا جسمانی نظام مائیکرو گریویٹی کے لیے موزوں نہیں ہے،خواتین باطنی طور پر مردوں کے مقابلے میں کم مضبوط ہوتی ہیں وغیرہ مگر ان سب کے علاوہ حکومت کے صنفی مساوات کے دعوے والی پالیسیاں بھی ذمے دار ہیں،جو خلائی شعبے میں یکساں طور پر لاگو نہیں ہو سکے۔ مگر اب حالات بہتر ہو رہے ہیں خلائی صنعت space industry، تیز رفتاری سے خواتین کے لیے بھی اپنے دروازے کھول رہی ہے۔ خواتین خلائی مشنز کے مختلف شعبوں میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں، جیسے کہ انجینئرنگ، سائنس، خلائی سفر، قیادت اور رہنمائی وغیرہ ۔
اس مضمون میں ان خواتین کی اہم کامیابیوں کا احاطہ کیا جائے گا جنھوں نے مختلف خلائی مشنز میں اپنے ملکوں کے لیے نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں۔ اس حوالے سے ISRO سے وابستہ اہم خواتین خلابازوں کے تحقیقی تعاون کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔
انسانی خلائی سفر کے ابتدائی دنوں میں جب خواتین کو اس میدان سے الگ رکھا گیا تو کچھ جرات مند خواتین نے اس نقطہ نظر کو تبدیل کرنے کےلیے آگے آئیں، ان کے پاس اس میدان میں داخل ہونے کا واحد راستہ یہ تھا کہ وہ اپنی تعلیمی میدان میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔جتنے مواقع دستیاب ہوں اس سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کریں۔ جلد ہی خواتین نے زمینی اور تجرباتی مطالعات میں اپنی صلاحیت کا ثبوت دینا شروع کر دیا اور یہ بتا دیا کہ خلائی سائنس میں خواتین بھی اتنی ہی اہل و قابل ہیں۔اور ویلینٹینا تیر یشکوا کا کامیاب خلائی سفر ان شبہات کو غلط ثابت کر دیا۔
اب تک 70 سے زائد خواتین خلا میں سفر کر چکی ہیں۔ان میں کچھ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے طویل مدتی مہم کے crewmember کے طور پر کچھ خلائی شٹل اسمبلی پروازوں میں وزیٹر کے طور پر مختصر مدتی مشنز میں شرکت کی ہے۔اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد ان خواتین کی ہے جو زمین پر ڈائریکٹرز،منیجرز،فلائٹ ڈائریکٹرز اور دیگر تحقیقی کاموں میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔
1958 میں جب نیشنل ایروناٹیکس اینڈ اسپیس ایجینسی (NASA) کے قیام کی تجویز رکھی گئی تو جن خاتون نے اس میں رہنمائی کی اس کا نام تھا ڈاکٹر گالوے Dr Galloway،جنھوں نے امریکہ میں قومی دفاعی تجزیہ کار،اس کے بعد بین الاقوامی تعلقات (نیشنل ڈیفنس) کی سینئر اسپشیلسٹ کے طور پر کام کیا ہے۔سائنس دانوں سے مشورہ کرنے کے بعد ڈاکٹر گالوے نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ خلا انسانوں کے لیے ٹیلی کمیونیکیشن،موسمیاتی تبدیلی،تحقیق اور سائنسی تجربات جیسے اہم فوائد فراہم کر سکتا ہے۔انھوں نے NASA کے متعلق یہ مشورہ دیا تھا کہ NASA کو ایک بین الاقوامی اتھارٹی کے طور پر کام کرنا چاہیے نہ کہ ایک فوجی ایجینسی کے طور پر ان کے اس تجویز نے دنیا میں امن کا ایک راستہ کھول دیا اور NASA کی تنظیم نو کی گئی۔مزید انھوں نے اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے خلا کے پر امن استعمال(COPUOS)کے قیام میں بھی اہم تعاون کیا۔
16 جون 1963 کو سوویت خلا باز ویلینٹنا تیر یشکوا Valentina Tereshkova خلا میں سفر کرنے والی پہلی خاتون بنی۔ان کا مشن تقریباً تین دن تک جا ری رہا۔اس کے بیس سال بعد 1983 میں سیلی رائڈ sally Ride پہلی امریکی خاتون ہے جو اسپیس شٹل چیلنج پر خلا کا سفر کیا۔انھوں نے چار دیگر عملے کے ارکان کے ساتھ چھ دن کے مشن میں حصہ لیاجس میں دو مواصلاتی سیٹلائٹ لانچ کرنا شامل تھا۔2012 میں لیو یانگ liu yang چین کی پہلی خاتون خلا باز بنی جب انھوں نے دو مردوں کے ساتھ چین کے پروٹو ٹائپ خلائی اسٹیشن کے ساتھ تیرہ دن کے مشن میں حصہ لیا۔می جیمسن Mae jemison اور ایلن کولنز ellion collins بھی با الترتیب پہلی افریقی اور امریکی خاتون اور پہلی شٹل کمانڈر بنی۔اس کے علاوہ samantha cristoforetti خلا میں جانے والی پہلی اطالوی خاتون بنی۔خلا میں سب سے زیادہ وقت گزارنے کا ریکارڈ Peggy witsonپیگی وٹسن کے نام ہے جو امریکی تحقیقی تنظیم NASA کی طرف سے 665 دنوں میں یہ ریکارڈ اپنے نام کرنے میں کامیاب رہی۔ اور ابھی حال ہی میں بھارتی نژاد امریکی خلا باز سنیتا ولیمز 286 دن خلا میں گزارنے کے بعد زمین پر واپس آگئی ہیں۔ 2006 میں سنیتا ولیمز پہلی بار اسپیس شٹل ڈسکوری کے ذریعے خلا میں گئی تھیں، جہاں انھوں نے انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن (ISS) پر بطور فلائٹ انجینئر خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد وہ ISS کی کمانڈر بھی بنیں۔ اس کے لیے سات اسپیس واک مکمل کرنے کا ریکارڈ بھی انھی کے نام ہے، جن کا مجموعی دورانیہ 50 گھنٹے 40 منٹ تھا۔ اس دوران انہوں نے سولر پینل بھی نصب کیے اور سسٹمز کی مرمت اور آلات کی اپگریڈنگ جیسے اہم کام بھی کیے۔ سنیتا ولیمز کے والد کا تعلق گجرات سے تھا۔ انھوں نے ہندوستانی ثقافت اور روایات کے تئیں اپنی محبت کا اظہار بھی کیا ہے۔ سنیتا ولیمز کی ہندوستانی شناخت ملک کے لیے باعثِ فخر ہے۔
کیتھرین جانسن ریاضی کے ماہرین میں سے ہیں۔ خلائی تحقیق میں انھوں نے جو تعاون دیا ہے، اس کو کماحقہ سراہا نہیں گیا ہے۔ وہ NASA کے ساتھ ابتداء سے ہی شامل رہی ہیں۔ وہ افریقی نژاد امریکی ملازمین کے ایک گروپ میں شامل تھیں، جس کی وجہ سے انھیں صنفی امتیاز کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا، مگر ان کی قابلیت کے سامنے یہ خارجی قوتیں بے بس ہو گئیں۔ ان کی شاندار اور تیز ریاضیاتی ذہانت کی وجہ سے انھیں ”ہیومن کمپیوٹر” کہا جاتا تھا۔ اپنے 35 سالہ کیریئر کے دوران پروجیکٹ مرکری اسپیس فلائٹس کے لیے راستوں، لانچ ونڈوز، اور ایمرجنسی ریٹرن پاتھز کی کیلکولیشنز کر کے کئی ریکارڈ اپنے نام کیے۔ انھوں نے ایلن شیپرڈ کے مئی 1961 کے مشن اور جان گلین کے مداری خلائی مشن کے لیے راستوں کا تجزیہ کرنے میں بھی مدد کی۔ خلائی تحقیق کے ان ابتدائی کارناموں، خاص طور پر قمری لینڈر کرافٹ کو کمانڈ اور سروس ماڈیولز کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ترقی میں جانسن کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ آج انھیں ایک امریکی ہیرو کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ کیلکولیشنز میں مہارت کے ذریعے موجودہ کمپیوٹرز کی کارکردگی کو ممکن بنانے میں ان کا کردار بہت اہم ہے۔
جوائن ہارڈن مورگن NASA کی واحد خاتون انجینئر ہیں جو NASA کے 1969 کے اپالو 11 کے لانچ کے دوران فائرنگ روم میں موجود تھیں۔ وہ کینیڈی اسپیس سینٹر کی پہلی سینئر خاتون ایگزیکٹیو کے طور پر بھی اپنی قائدانہ وراثت چھوڑ چکی ہیں۔ انھوں نے ایجنسی کے ابتدائی فلائٹ پروگرامز کے لیے راکٹ لانچ، کمپیوٹر سسٹمز کی ڈیزائنگ میں عملی تجربہ حاصل کیا۔ ان کے عزم و قیادت نے دیگر خواتین انجینئروں کے لیے راہیں ہموار کیں، جس کے لیے انہیں کئی اہم اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
بھارت میں بے شمار باصلاحیت خواتین ہیں جنھوں نے سائنس اور تکنیک کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، اور مسلسل اس راہ میں اپنی صلاحیت و قابلیت سے تاریخ کے نئے باب لکھنے میں مصروف ہیں۔ بھارت کی تاریخ میں ایسی باصلاحیت خواتین کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں جنھوں نے مختلف سائنسی اداروں میں عہدے سنبھالنے کے ساتھ ساتھ جدید ترین ٹیکنالوجی کی ترقی و کھوج میں قیادت و رہنمائی کی ذمہ داری بھی اٹھائی ہے۔ ایسا ہی ایک مثال ہندوستان کی خاتون ڈاکٹر ٹی تھامس کی ہے۔ وہ ”میزائل ویمن” کے نام سے بھی جانی جاتی ہیں۔ ٹی تھامس ہندوستانی خلائی تحقیقی تنظیم ISRO کی ایک ممتاز سائنس داں بھی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ Agni 3 اور Agni 4 میزائل کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کے طور پر بھی ان کا انتخاب کیا گیا تھا، اور 2018 میں انھیں DRDO کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔ کسی خاتون کے لیے یہ کامیابی کسی خواب سے کم نہیں ہے۔
کلپنا چاولہ کو کون نہیں جانتا جس کا سفر آج لاکھوں لڑکیوں کے حوصلوں کی افزائش کا سامان ہے۔ یہ پہلی بھارتی نژاد خاتون خلا باز تھیں جنھوں نے 1997 اور 2003 میں اسپیس شٹل کولمبیا پر سفر کیا۔ بد قسمتی سے وہ 2003 کے کولمبیا حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھیں، لیکن ان کی کامیابی آج بھی ابھرتی ہوئی خلا بازوں کے لیے حوصلہ افزائی کا ذریعہ ہے۔
ہندوستانی خلائی تحقیقی تنظیم (ISRO) بھارت کی ایک ایسی تنظیم ہے، جو اسپیس سے متعلق تمام اقدامات کی پہل کرتی ہے، جس کی مدد سے ملک اسپیس ٹیکنالوجی کے میدان میں بڑی تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ ISRO کی اسپیس سرگرمیوں کو کامیاب بنانے میں کئی خواتین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مارس (Mars Orbital Mission) یا منگلیان اور Aditya L1 جیسے اہم مشنز، جن کی ایک ایک سرگرمی کو عوام کے سامنے اور مختلف سوشل میڈیا ہینڈلز پر اپڈیٹ کیا جاتا تھا۔ اس تشہیر کے ذریعے ان خواتین کے اہم کرداروں کو بھی اجاگر کیا گیا جو اپنی ذاتی و سماجی زندگی اور اپنے کام کے بیچ ایک توازن قائم کر کے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھتے ہوئے ان مشنز میں کلیدی عہدے سنبھالتی رہیں اور خوب عرق ریزی کی۔
حالیہ مثال نگار شاجی (Nigar Shaji) کی ہے جو بھارت کے Aditya L1 مشن کی پروجیکٹ ڈائریکٹر تھیں۔ بھارت کا یہ پہلا مشن تھا جو سورج کی سرگرمیوں کا مشاہدہ و معائنہ کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا اور مشن کامیاب بھی رہا، اور بھارت ایسا کرنے والا دنیا کا چوتھا ملک بن گیا ہے۔
بھارت کا چندریان 3 قمری مشن جو جولائی 2023 میں لانچ ہوا تھا، اس میں کئی خواتین نے اہم کردار نبھایا تھا۔ اس کی پذیرائی دیش کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے الفاظ میں کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا: ”اس مشن میں خواتین سائنس دانوں نے مشن کی کامیابی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا، ان کے بغیر یہ کامیابی ممکن نہیں تھی۔‘‘ مودی نے چندریان 3 کے لینڈنگ والے مقام کا نام ”شیو شکتی‘‘ رکھنے کا فیصلہ لیا، جو ہندوستانی اساطیر میں نسوانی توانائی کے تصور سے ماخوذ ہے۔ اس مشن میں 16 ہزار سے زائد ملازمین نے حصہ لیا تھا، جن میں 20 سے 25 فیصد خواتین شامل تھیں، 100 سے زائد خواتین سائنس دانوں نے اس مشن کو کامیاب بنانے میں حصہ لیا تھا، جس کا نتیجہ 23 اگست 2023 کو بھارت کے قمری روور (Rover) کی سافٹ لینڈنگ کی صورت میں نکلا۔ اور چاند کے جنوبی حصے میں پہنچنے والا بھارت پہلا ملک بن گیا۔
مشن کی رہنما ٹیم میں کلپنا کلا ہستی ڈپٹی پروجیکٹ ڈائریکٹر کے روپ میں اپنی خدمات انجام دے رہی تھیں۔ کلپنا کلا ہستی وہی شخصیت ہیں جنھوں نے بھارت کا دوسرا قمری مشن (Second Lunar Mission) اور مریخ مدار مشن (Mars Orbital Mission) میں بھی اہم کردار نبھایا تھا۔
اسی کڑی میں روبوٹکس کی ماہر ریما گھوش بھی ایک اہم نام ہیں جنھوں نے روور (Rover) کی تیاری میں کام کیا تھا۔ وہ ابھی چاند کی سطح پر تحقیقی کام میں مصروف ہیں۔
ریتو کریڈھال ایک سینئر سائنس داں اور ایرو اسپیس انجینئر ہیں۔ وہ کئی اہم خلائی مشنز کا حصہ رہی ہیں، جن میں چندریان 2 اور منگلیان وغیرہ شامل ہیں۔
ریتو کریڈھال بھارت میں ”Rocket Woman” کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ انھیں ISRO کی جانب سے Young Scientist ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔
انورادھا، جو 1982 میں ISRO کا حصہ بنی تھیں، پہلی خاتون سیٹلائٹ پروجیکٹ ڈائریکٹر بننے کا اعزاز حاصل کر چکی ہیں۔ انہوں نے GSAT-9، GSAT-17، اور GSAT-18 کی کامیاب تعیناتی میں قیادت کی۔
ونیتا متھیا (Vanitha Muthayya) چندریان 2 مشن کی پرنسپل تحقیق کار تھیں اور دیگر سیٹلائٹس جیسے کارٹو سیٹ 1، اوشین سیٹ 2، میگھا ٹروپیکس میں ڈپٹی پروجیکٹ ڈائریکٹر کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکی ہیں۔اسی کڑی میں نندنی ہری ناتھ بھی ایک اہم نام ہیں، وہ ایک تجربہ کار ایرو اسپیس انجینئر ہیں۔ وہ 2014 کے منگلیان مشن کی ڈپٹی آپریشن ڈائریکٹر تھیں۔اس کے علاوہ منال سمپتھ، سیتھا، منال روہت، این ولارماتھی، ممیتا دت، کریتی فوجدار وغیرہ ایسے نام ہیں جنھوں نے مختلف اسپیس مشنز کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور عالمی پیمانے پر ملک کے نام کو روشن کیا۔
خلائی تحقیق میں خواتین کی کامیابیاں واقعی میں ایک انقلاب کی مانند ہیں، مگر ان کا یہ سفر مختلف چیلنجز اور مسائل سے خالی نہیں ہے۔اب بھی انھیں ایسے متعدد مسائل کا سامنا ہے جو ان کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ یہ چیلنجز مختلف عوامل جیسے سماجی، مذہبی و ثقافتی اصول، صنفی تعصبات، اور صنعت کے اندرونی نظامی مسائل سے جنم لیتے ہیں۔خلائی صنعت میں خواتین کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ وہ دقیانوسی خیالات ہیں جو ان کے بارے میں قائم کیے گئے ہیں، جیسے یہ مانا جاتا ہے کہ سائنس اور انجینئرنگ ایسے شعبے ہیں جن پر مردوں کی اجارہ داری ہے، مرد اس میدان میں زیادہ بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔اسی وجہ سے تکنیکی مہارت کو مردانگی سے جوڑنے والے خیالات کو فروغ ملا ہے اور خواتین کی صلاحیت و قابلیت کو اہم نہیں سمجھا گیا، نتیجتاً خواتین کی خوبی کہیں گمنامی کا شکار ہو کر ترقی و پہچان سے دور رہ جاتی ہے۔
دوسری وجہ اس صنعت میں خواتین کی قیادت کا نہ ہونے کے برابر ہونا ہے۔ بہت کم ایسے اعلیٰ عہدے ہیں جن پر خواتین فائز ہوں، جو ایک نمائندہ کے طور پر آنے والی نسلوں کی رہنمائی کر سکیں اور ایک رول ماڈل کے طور پر سامنے آئیں۔تیسری وجہ مواقع اور وسائل تک محدود رسائی ہے۔ تعلیمی مواقع، انٹرن شپ، اور وسائل تک رسائی کیریئر کو آگے بڑھانے کے لیے نہایت اہم ہے۔بھرتی کے عمل میں غیر شعوری تعصب، نیٹ ورکنگ کے محدود مواقع اور کیریئر کونسلنگ کی کمی جیسے عوامل خواتین کی بنیادی ترقی کی راہیں مزید مشکل بنا دیتے ہیں۔
جنسی استحصال، جو آج ہر صنعت میں عام ہے، خلائی شعبہ بھی اس سے پاک نہیں ہے۔خواتین کو صنفی بنیاد پر امتیازی سلوک، جنسی ہراسانی، غیر مساوی سلوک جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو ان کی پیشہ ورانہ ترقی اور مجموعی فلاح و بہبود پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔اسی لیے ایسے جامع ماحول بنانے کی ضرورت ہے جس میں ان کی عزت و احترام کا خیال رکھا جائے۔
اس سلسلے میں بہت سی ایسی خواتین ہیں جن کے چیلنجز دیگر خواتین کے مقابلے میں مختلف اور اضافی ہیں۔پسماندہ کمیونیٹیز سے تعلق رکھنے والی خواتین کو صنف، نسل، قومیت اور دیگر سماجی شناختوں کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
لہٰذا خلائی صنعت میں خواتین کو درپیش رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے افراد، تنظیموں، اور معاشرے کی اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے۔اس بات پر دھیان دیا جائے کہ جہاں خواتین کام کر رہی ہیں، ان مقامات کو تمام طرح کے خطرات سے محفوظ کیا جائے،صنفی امتیاز اور سماجی تفاوت کو ختم کرنے کے لیے سرکاری پالیسیوں کا صحیح نفاذ کیا جائے،ان کے تحقیقی سفر کو آسان بنانے کے لیے برابر مواقع اور فنڈز کا معقول انتظام کیا جائے،ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے عالمی منظرنامے پر ایک level playing field تیار کیا جائے،تاکہ خواتین خلائی تحقیق میں آنے والی رکاوٹوں کا مقابلہ آسانی سے کر سکیں۔ایک پدرانہ نظام میں خواتین کا اپنے معاشرتی رجحان سے باہر نکلنا ہی ایک چیلنج ہےاور یہ خواتین جب خلائی تحقیق میں اپنی قابلیت منواتی ہیں تو واقعی میں یہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتی ہیں۔
تاہم، خلائی تحقیق میں جو صنفی فرق ابھی برقرار ہے، اسے کم کرنے کے لیےسائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، اور میتھمیٹکس (STEM) میں خواتین کی شرکت بڑھانے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

سائنسی دنیا

مذہبی تناظر میں جدید انفارمشن  ٹکنا لوجی کا استعمال

ابن العائشہ صدیقی علی گڑھ مذہب اسلام اپنی آفاقی تعلیمات کے ذریعے ہر زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے کی
سائنسی دنیا

ماحولیاتی مسائل، عوام اور سرکار

غلام علی اخضر موجودہ وقت میں ماحولیاتی مسائل کسی وبا سے کم نہیں ہیں۔ پوری دنیا اس سے نبرد آزمائی