حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ وا لرضوان کی مقبولیت

ڈاکٹر محمد سجاد عالم رضوی مصباحی
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ تاریخ: پریسیڈنیسی یونیورسٹی، کولکاتا
حضورتاج الشریعہ،بدرالطریقہ حضرت علامہ مفتی شاہ محمد اختر رضا خان ازہری قادری بریلوی(ولادت: ۲۳ ؍نومبر۱۹۴۳ء-وصال : ۲۰ ؍جولائی ۲۰۱۸)نور اللہ مرقدہ مفسراعظم حضرت علامہ ابراہیم رضا خان ابن حجۃ الاسلام حضرت مولانا حامد رضا خان علیہما الرحمۃ والرضوان کے فرزند ارجمند تھے۔آپ ایک عالم باعمل اور شیخ کامل تھے۔ آپ اپنے علم وفضل ، کردار و عمل اور تقوی طہارت میں اپنے جد امجد ؛ امام اہل سنت، اعلیٰ حضرت اما م احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمۃ و الرضوان کے علوم و معارف کے وارث اور حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ والرضوان کے جانشین تھے۔
حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمۃ وا لرضوان علم و حکمت، فضل وکمال، اتباع شریعت و طریقت، عبادت و ریاضت ، عزم و استقامت، ایفائے عہد، تواضع و منکسرالمزاجی،تقوی و طہارت، زہد و ورع، سادگی وفروتنی، عرفان و آگہی اور کردار کی بلندی میں ایک منفرد شناخت رکھتے تھے۔ تبحر علمی، زبان دانی اور سلوک ومعرفت کے میدان میں عالمی شہرت کے حامل تھے۔اپنے عظیم خانوادے کے علمی و روحانی کمالات کے سچے وارث تھے۔ انہی اوصاف کی وجہ سے آپ ہندو پاک میں ایک مقبول شخصیت تھے اور عوام و خواص کی نظر میں دینی ، فقہی اور روحانی علوم و معارف کے حوالے سے ایک مرجع کی حیثیت رکھتے تھے۔امام اہل سنت وجماعت حضرت امام احمدرضا خان قادری، حجۃ الاسلام حضرت مولانا حامد رضا قادری، مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مصطفی رضا قادری اور مفسر اعظم حضرت مولانا ابراہیم رضا قادری علیہم الرحمۃو الرضوان کے علمی و عملی کمالات سے آپ کو وافر حصہ ملاتھا۔فہم و ذکا، قوت حافظہ، جود ت طبع، فقہ و افتا میں مہارت و اصابت،، قوت بیان ،شریعت مطہر ہ پراستقامت و ثبات قدمی اورطریقت و راہ سلوک میں کمال جیسے اوصاف حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ و الرضوان کو انہی حضرات سے وراثت میں ملے تھے،اور آپ نے علم وعمل اور کردار سے یہ ثابت کردیا کہ آپ اپنے با کمال اسلاف کرام علیہم الرحمۃ والرضوان کی میراث کے قابل بھی تھے۔راہ سلوک اور طریقت اور روحانیت کی تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے مریدین و متوسلین کے علاوہ بہت سے لوگوں نے آپ کو کامل و مکمِّل شیخ طریقت بھی مانا ہے۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اہل علم و نظر نے آپ کے علمی و عملی اور اخلاقی و روحانی فضل و کمال کااعتراف کیا اور آپ کو شایان شان القابات و خطابات سے یاد کیا ہے۔
حضورتاج الشر یعہ علیہ الرحمۃ و الرضوان کی شہرت و مرجعیت در اصل اس مقبولیت اور محبوبیت کی وجہ سے ہے جو اللہ تبارک و تعالی کے فضل و کرم سے آپ کو ملی تھی:
ایں سعاد ت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
حضورتاج الشر یعہ علیہ الرحمۃ و الرضوان نے اپنی زندگی میں دعوت و ارشاد، علم و عمل ، اصابت و استقامت اور روحانی نسبتوں کو حوالے سے فکر و عمل کے ایسے نقوش چھوڑے ہیں جو آئندہ نسلوں کے لیے نشان منزل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ وہ جہات ہیں جن میں ایمان و عقیدہ کی صحت اور عمل و کردار کی بلندی اور خلوص و للہیت کی بدولت ایک بندہ اپنے رحیم و رحمن رب کی عنایتوں سے سرفراز ہو تا ہے۔ قرآن عظیم میں ہے:
’’بے شک وہ جنہوں نے کہا: ہمار ا رب اللہ ہے ،پھر اس پر قائم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور خوش ہواس جنت پر جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے۔ہم تمہارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں، اور تمہارے لیے ہے اس میں جو تمہارا جی چاہے اور تمہارے لیے ہے اس میں جو مانگو۔مہمانی بخشنے والے مہربان کی طرف سے۔اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیکی کرے اور کہے میں مسلمان ہوں۔اور نیکی اور بدی برابر نہ ہو جائیں گی،اے سننے والے برائی کو بھلائی سے ٹال جبھی وہ کہ تجھ میں اور اس میں دشمنی تھی ایسا ہو جائے کہ گہر ا دوست۔اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صابروں کو، اور اسے نہیں پاتا مگر بڑے نصیب والا۔ ‘‘ (قرآن مجید؛ ۳۵۔۳۰:۴۱؛ ترجمہ از کنز الایمان)۔
تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے والوں اور صبر و استقامت کا مظاہر ہ کرنے والوں کو اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ اقدس سے عظیم اجر ملتا ہے:
’’بے شک جو پرہیزگاری اور صبر کرے تو اللہ نیکوں کا نیگ (اجر ) ضائع نہیں کرتا۔‘‘ (قرآن مجید؛ ۹۰:۱۲؛ ترجمہ از کنزالایمان)۔
اور یہ اجر و ثواب بھی ایساکہ اس کے بارے میں خود اللہ جل شانہ و عم نوالہ کا فرمان ہے کہ :
’’اور جواللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا، یعنی انبیاء، صدیق اور شہید اور نیک لوگ، یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے اور اللہ ہی کافی ہے جاننے والا۔ (قرآن مجید؛ ۶۹۔۷۰:۴؛ ترجمہ از کنزالایمان)
ان آیات کریمہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عبادت و بندگی اور مجاہدہ و ریاضت کے ذریعہ سعید و نیک بخت انسان اپنے رب کریم جل جلالہ و عم نوالہ کے بے پایاں فضل و کرم کو حاصل کرتا ہے ۔ اور اللہ تعالی کے محبوب اور پسندیدہ بندوں میں اس کا شمار ہو تاہے۔اور جو بندے اپنے مالک اور آقا کے پیغام کی دعوت و تبلیغ کا کام کرتے ہیں اوراس راہ میں درپیش مسائل کا صبر و استقلال کے ساتھ سامنا کرتے ہیں اور اس کے پیارے اور چہیتے رسول صلی اللہ تعالی علیہ و علی آلہ واصحابہ کے مقام و مرتبہ اور عظمت و ناموس کی حفاظت اور اس کی محبت و اطاعت کے لیے صالح جذبات کو پروان چڑھاتے ہیں ان پر اللہ تبارک و تعالی کی خصوصی نوازش ہوتی ہے۔
اس لحاظ سے دیکھیں تو حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان کی زندگی دین و سنیت کی خدمت کے لیے وقف تھی۔حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ و الرضوان نے لوگوں کو کتاب و سنت پر عمل کی دعوت دی۔ عقیدہ و عمل کی اصلاح و درستگی کے لیے کوششیں کیں۔ معاشرہ میں پھیلی اعتقادی اور عملی مفاسد اور خرابیوں کو دور کرنے کے لیے جدو جہد کی۔لوگوں کو برائی سے دور رہنے اور نیکی کی راہ پر چلنے کی تلقین کی۔اور دعوت و ارشاد کا کام کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ لاکھوں لوگوں نے آپ سے دینی و روحانی تعلیم و تربیت حاصل کی۔جو لوگ دعوت و ارشاد کا کام کرتے ہیں اللہ تعالی ان کو پسند فرماتا ہے اور ان کو لوگوں میں مقبولیت سے نوازتا ہے۔ ذیل میں حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ و الرضوان کی حیات مبارکہ کے چند گوشوںاور آپ کے چند اوصاف و کمالات کا بیان ہے جن کی وجہ سے آپ پر اللہ تبار ک وتعالی کے فضل وکرم کی بارش ہوئی ۔ اور عوام و خواص میں آپ کو مقبولیت اور ہر دلعزیزی ملی۔
دعوت و تبلیغ:حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ و الرضوان نے تحریر و تقریراور دعوتی و تبلیغی اسفار اور بیعت و ارشاد کے ذریعے بہت سے گم گشتگان راہ کو دین و سنیت کے راستے پر گامزن کیا۔ بہت سے ناقصوں کو کمال کے درجہ پر فائز فرمایا۔اور اپنے اسلاف کرام کے نقوش قدم پر چل کر بے شمار بندگان ِ خداکے دلوں کو اسلام و سنیت کے نور سے روشن کردیا۔آپ نے اپنی تقریروں کے ذریعہ دینی، ملی ،سماجی اور عائلی مسائل پر اہل اسلام کی رہنمائی فرمائی ۔ دعوت و تبلیغ کے مقصد سے آپ نے ملک و بیرون ملک متعدد اسفار بھی کیے۔ ان میں آپ نے سواد اعظم اہل سنت و جماعت کے مسلک اورافکار و نظریات کو فروغ دیا۔ باطل فرقوں کی شناخت اور ان کی تردید کا بھی کام کیا ۔حالات حاضرہ کے تناظر میں مسلمانوں کو درپیش مسائل اور مشکلات اور ان کے حل پربھی روشنی ڈالی۔ مختلف ممالک کے علماء ، مشائخ اور دانشوروں کے ساتھ ان موضوعات پر گفتگو بھی فرمائی۔ان دعوتی و تبلیغی اسفار کے دوران بہت سے لوگ آپ کے دست حق پرست پر بیعت کرکے کفر و گمراہی کے دلدل سے نکل کر دین و سنیت کی راہ پر چلنے لگے۔ان اسفار میں خوش نصیب حاضر باشوں کا کہنا ہے کہ حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ و الرضوان کی ارشاد و اصلاح کی اثر آفرینی کا یہ عالم تھا کہ آپ کی زبان فیض ترجمان سے نکلے ہوئے چند جملے ہی کسی کی زندگی میں اعتقادی ، عملی، اخلاقی اور روحانی انقلاب لانے کے لیے کافی ہوتے تھے۔ اسی کے ساتھ آپ کی مثالی شخصیت بھی دوسروں کے لیے قابل تقلید نمونہ تھی۔اور کیوں نہ ہو کہ آپ علم و فضل ، زہد و تقوی اور خلوص و للہیت کے پیکر اور شریعت اسلامیہ کی پاسداری میں اپنے عظیم اسلاف کرام علیہم الرحمۃ و الرضوان کے عکس جمیل تھے۔حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ و الرضوان شریعت اور طریقت کی روایتوں کے حامل اور امین تھے۔ یہی وجہ کہ آپ کی شہرت و مرجیعت کا دائرہ ملک و بیرون ملک تک پھیلا ہواتھا۔ جس شہر اور جس علاقے میں آپ تشریف لے گیے وہاں اہل علم اور عوام آپ کی صحبت میں حاضر ہو کرآپ کے منبع علم وعمل اور تعلیم و تربیت سے سیراب ہوتے تھے۔
علم و عمل: حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ و الرضوان کے علمی مقام کے بارے میں علامہ عبد المبین نعمانی رضوی مدظلہ العالی فرماتے ہیں :
’’آپ کی ذات پوری جماعت اہل سنت کے لیے مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔ تفقہ فی الدین میں جو وراثت آپ کو حاصل ہے یکتائے زمانہ ہیں۔ فقہی جزئیات نوک زبان پر رہتے ہیں۔۔۔اپنے اوقات کے تحفظ پر حد درجہ اہتمام فرماتے ہیں۔ غیر ضروری باتوں سے پرہیزاور مطالعہ کتب ، سماعت کتب اور درس حدیث و فقہ، نیز فتوی نویسی آپ کا محبوب مشغلہ ہے۔ ساتھ ہی تصنیف وتالیف میں بھی اچھا خاصا وقت صرف فرماتے ہیں۔ حتی کہ سفر میں بھی تصنیف و ترجمہ کا کام جاری رکھتے ہیں۔ سفر میں بالعموم وقت کم ملتا ہے۔ ملنے جلنے والوں کی بھیڑ سے بچ نکلنا آسان نہیں، لیکن حضرت ازہری صاحب قبلہ عقیدت مندوں کی بھیڑ سے نکل کر علمی مشاغل اپناتے ہیں۔ــ‘‘ (تجلیات تاج الشریعہ:۲۰۷)۔
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ و الرضوان نے علم قرآن و تفسیر،علم حدیث و فقہ، علم کلام وعقائد اور شعر و شاعری کے میدان میںتابندہ علمی و فکری نقوش چھوڑے ہیں۔ان علوم و فنون میں آپ کی کتابیں اور فتاوی آپ کے علمی مقام و مرتبہ کی روشن دلیل ہیںاور آپ کی جودت طبع اور قوت استحضار کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔فقہی بصیرت ،فکر کی بالیدگی، ژرف نگاہی، علمی ثقاہت، فنی لیاقت اور ادبی و تنقیدی صلاحیت کے اعتبار سے آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔علوم نقلیہ و عقلیہ میں آپ نمونۂ اسلاف تھے اور اعلی حضرت امام اہل سنت وجماعت علیہ الرحمۃ والرضوان کے علمی و فقہی فیضان کاپر تو تھے۔آپ نے اپنی قلمی نگارشات میں قرآن و حدیث اور کتب فقہ کی روشنی میں اہل سنت و جماعت کے عقائد ، افکار و نظریات اور معمولات کی وضاحت فرمائی ہے اور بہت سے اذہان و قلوب کو شکوک وشبہات کی وادی سے نکال کر یقین و اذعان کی راہ دکھائی ہے۔ لادینیت ، گمراہی ،بداعتقادی اور بداعمالی کے فتنوں سے اہل اسلام کو دور رکھنے کے لیے متعدد کتب و رسائل تصنیف فرمائے ہیں۔
علم کے ساتھ عمل کے میدان بھی حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ و الرضوان ایک انفرادی شناخت رکھتے تھے۔جن لوگوں کو حضورتاج الشریعۃ علیہ الرحمۃ وا لرضوان کی بارگاہ اور صحبت میں حاضری کا شرف ملا ہے اور سفر و حضر میں ساتھ رہنے اور آپ کے معمولات و مشاغل کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ اوراد ، وظائف، تلاوت قرآن کریم ، شب بیداری اور ذکر و فکر آپ کے محبوب مشاغل تھے ۔ آپ کی زندگی نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و علی آلہ و اصحابہ کے اسوۂ حسنہ کے کامل اتباع پر مبنی تھی اور شریعت و طریقت کے رنگ میں ڈھلی ہوئی تھی۔ اس طرح سے حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ و الرضوان کو اللہ تبارک و تعالی نے علم و عمل کی دولت سے سرفراز فرمایا تھا۔ اور جن کو یہ دولت ملتی ہے ان کے مقام و مرتبہ کو خود اللہ تبارک و تعالی بلند فرماتا ہے:
’’ اے ایمان والو جب تم سے کہا جائے مجلسوں میں جگہ دو تو جگہ دو ،اللہ تمہیں جگہ دے گا، اور جب کہا جائے اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہو۔ اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا، اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔‘‘ (قرآن مجید؛ ۱۱:۵۸)
اس آیت کریمہ میں ایمان اور عمل والوں کی خداداد رفعت و بلندی کا ذکر ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ علم کی مجلس منعقد کرنا ،اس میں شریک ہونا اور آداب مجلس کی رعایت کرنا رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کی سنت مبارکہ ہے۔اس لحاظ سے بھی اگر دیکھیں تو حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ و الرضوان کی زندگی سنت طیبہ کے کامل اتباع پر مبنی تھی۔آپ نے علم دین کی برکات کو اپنی تحریر و تقریر کے ذریعہ عام کیا۔علم دین کی یہ دولت بھی بلاشبہ رب تبارک و تعالی کی عطا اور بخشش تھی جس کی بدولت آپ کو رفعت و بلندی ملی۔حدیث پاک میں ہے۔ــ’’حضرت معاویہ ( رضی اللہ تعالی عنہ ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جس کے ساتھ اللہ تعالی بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کو دین کی سمجھ عطا فرمادیتا ہے۔ اور بے شک میں تقسیم کرتا ہوں اور اللہ تعالی عطا فرماتا ہے۔‘‘ (مشکوۃ شریف، مطبوعہ مجلس برکات، الجامعۃ الاشرفیہ، مبارکپور، ص: ۳۲)ایک دوسری حدیث میں ہے ۔ ’’حضرت علی (کرم اللہ جہہ الکریم) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اچھا شخص وہ ہے جو دین کا علم رکھتا ہو۔ اگر اس کی حاجت ہو تو وہ نفع پہنچاتا ہے اور اگر اس سے بے پرواہی برتی جائے تو وہ بے نیازی کا اظہار کرتا ہے۔ روایت کیا اس کو رزین نے۔‘‘ (مشکوۃ شریف، مطبوعہ مجلس برکات، الجامعۃ الاشرفیہ، مبارکپور، ص: ۳۶)۔اللہ تبارک و تعالی نے حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ و الرضوان کو علمِ دین کی سمجھ عطا فرمائی تھی اور اسی کے استغنا بھی۔یہ وجہ ہے کہ آپ نے علم دین کی تبلیغ و اشاعت میں کسی شخصیت یا مادی مصلحت کی رعایت نہیں کی ۔بلکہ دینی و شرعی احکام اور تعلیمات کے لیے ہمیشہ اللہ تبارک و تعالی اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمودات کو پیش نظر رکھا۔
اصابت و استقامت :شرعی اورفقہی احکام ومسائل کی تشریح و توضیح میں آپ کی رائے فقہی اصولوں پر مبنی ہوتی تھی۔کتاب و سنت کی روشنی میں جو رائے قائم کرتے ان پر دیانت کے ساتھ عمل بھی کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ حق گوئی اور بے باکی کے لحاظ سے بھی عوام و خواص میں آپ کی شہرت ہے۔شریعت مطہرہ کی پاسدار ی میں کسی مادی منفعت کا خیال نہیں رکھتے تھے۔ اور اگر کسی کو خلاف شرع امور میں ملوث دیکھتے تو بلاخوف اور بلا رو رعایت اس کی کوتاہی پر دھیان دلاتے اور ان امور سے اجتناب کی تعلیم دیتے تھے۔اس حق گوئی کا اس شخص پر اور حاضرین پر یہ اثر پڑتا تھا کہ وہ سب آپ کی عزیمت اور استقامت کے قائل ہو جاتے تھے۔حقانیت و صداقت کے اظہار میں آپ نے کبھی بھی کسی کی ناراضگی، مصلحت کے تقاضوں یا پھر قید و بند اور مصائب و آلام کے خطرات پر دھیان نہیں دیا۔نسبندی کے مسئلے پر حکومت ہند کا دباؤ ہو یا پھر اہل سنت وجماعت کے عقائد و معمولات پر عمل کی صورت میں سعودی حکومت کا ظلم ، ہر موقع پر آپ نے قرآن و سنت کی روشنی میں اہل سنت و جماعت کے مسلک اور عقائد و معمولات کو بلا خوف لومۃ لائم پیش کیا۔ اس کے علاوہ اعتقادی اور فقہی مسائل کے حوالے سے بھی آپ نے قرآن و حدیث اور کتب فقہ کی روشنی میں جو رائے قائم کی اس پرتا حیات ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہے۔
روحانی نسبت: حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ و الرضوان خانوادۂ رضویہ کی دینی و علمی اور روحانی و فکری روایتوں کے امین تھے۔تحفظ عقائد ، عشق رسالت ، فقہ و افتاء کے ذریعہ خدمت خلق اور دعوت و ارشاد اس خانوادے کے امتیازی اوصاف ہیں۔اس خانوادے میں علمی و فقہی خدمات کے ساتھ روحانی تعلیم و تربیت کی روایت رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۵؍ جنوری، ۱۹۶۲ء کو ، حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ و الرضوان نے آپ کو اپنا قائم مقام بنایا اور جمیع سلاسل عالیہ، قادریہ ، سہروردیہ، نقشبندیہ اور چشتیہ اور جمیع سلال احادیث کی اجازت و خلافت عطا فرمائی۔ ساتھ ہی اوراد اور وظائف، اعمال و اشغال، دلائل الخیرات ، حزب البحر اور تعویذات وغیرہ کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔۱۴۔۱۵ نومبر، ۱۹۸۴ ء کو مارہرہ مطہرہ میں عرس قاسمی کی تقریب میں احسن العلماء حضرت مفتی سید حسن میاں برکاتی ، سجادہ نشین خانقاہ برکاتیہ مارہرہ نے فرمایا: ’’فقیر آستانہ عالیہ قادریہ برکاتیہ نوریہ کے سجادہ کی حیثیت سے قائم مقام مفتی اعظم علامہ اختر رضا خان صاحب کو سلسلہ قادریہ برکاتیہ نوریہ کی تمام خلافت و اجازت سے ماذون و مجاز کرتا ہے۔ پور ا مجمع سن لے، تمام برکاتی بھائی سن لیں اور یہ علمائے کرام (جو عرس میں موجود ہیں) اس بات کے گواہ رہیں۔ــ‘‘ سید العلماء مولانا الشاہ سید آل مصطفی برکاتی مارہروی علیہ الرحمۃ والرضوان نے بھی جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت عطا فرمائی ۔ اور خلیفۂ اعلی حضرت ، برہان ملت حضرت برہان الحق رضوی جبل پوری علیہ الرحمۃ و الرضوان نے بھی آپ کو تمام سلاسل اور حدیث شریف کی اجازت سے نواز ا تھا۔اس کے علاوہ بہت سے علماء کرام اور مشائخ عظام علیہم الرحمۃ و الرضوان سے حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ و الرضوان کو خلافت و اجازت حاصل تھی۔ان بزرگ علمائے کرام اور مشائخ عظا م علیہم الرحمۃ و الرضوان کی طرف سے ملنے والی اجازتوں اور خلافتوں کے طفیل حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان نے علمی و روحانی مدارج کی تکمیل کی ۔ اسلاف کرام علیہم الرحمۃ و الرضوان کی تعلیمات کی روشنی میں اور اپنے علم و عمل اور ریاضت و مجاہد ہ کے ذریعہ روحانیت کے مقام پر فائز ہوئے۔ لاکھوں لوگ آپ کے دامن سے وابستہ ہو کرعلم و عمل اور روحانیت سے فیض یاب ہوتے تھے۔اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ اقدس میں آ پ کی مقبولیت کا یہ اثر تھا کہ بسا اوقات لوگ ہزاروںکی تعداد میں آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوتے تھے۔گناہوں سے استغفار کرتے تھے۔ لادینیت ، بے دینیت، گمراہیت، خرافات اور غیر شرعی امور اور اخلاقی عیوب سے اجتناب کرنے کا عہد کرتے تھے۔ اورفرائض و واجبات کی ادائیگی کا وعدہ کرتے تھے۔اور سلسلہ قادریہ میں داخل ہو کر مشائخ عظام علیہم الرحمۃ والرضوان سے اپنی نسبت جوڑ لیتے تھے۔اس طرح سے ایشیا و یورپ، امریکہ و افریقہ اور عرب ممالک میں امت مسلمہ کے ہزاروں افراد کو حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ و الرضوان کی دعوت و ارشاد کا فیضان ملا۔ وہ آ پ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہو کر متعدد سلا سل طریقت کے مشایخ عظام کی نسبتوں سے وابستہ ہوئے اور ان کے فیوض و برکات سے بہرہ ور ہوئے۔
حاصل کلام : حضرت مولانا یٰسٓ اختر مصباحی ؛ حضرت مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے رقم طراز ہیں: ’’مفتی اعظم ہند کو اپنی زندگی کے آخری پچیس سالوں میں جو مقبولیت و ہردلعزیزی حاصل ہوئی وہ آپ کے وصال کے بعد ازہری میا ں کو بڑی تیزی کے ساتھ ابتدائی سالوں ہی میں حاصل ہو گئی۔ اور بہت جلد لوگوں کے دلوں میں ازہری میاں نے اپنی جگہ بنالی۔ــ‘‘(تجلیات تاج الشریعہ؛ ص:۶۸) در اصل حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان کو اللہ تبارک و تعالی نے سعادت و بلندطالعی عطا فرمائی تھی اور ان کو اپنے فضل کرم سے نواز ا تھا۔ اور ان اس عظیم خانوادے میں پیدا فرمایا تھا جو دین متین کی خدمت اور دعوت و ارشاد کے لیے مشہور زمانہ ہے۔ حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان نے اس خانوادے کی میراث کی حفاظت بھی فرمائی اور اس کی نشر و اشاعت کا کام بھی کیا۔ اور اللہ تبارک و تعالی نے آپ کو مقبولیت اور مرجعیت کا بلند مقام عطا فرمایا: حدیث پاک میں ہے : ’’حضرت ابوہریرہ( رضی اللہ تعالی عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا: جب اللہ تعالی اپنے کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل (علیہ السلام) کو بلا کر فرماتا ہے کہ میں فلاں سے محبت کرتا ہوں ۔ لہذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ پس جبرئیل اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر آسمان میں منادی کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ اللہ تعالی فلاں سے محبت کرتا ہے ۔ لہذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ پس آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر زمین میں اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔اور جب اللہ تعالی کسی بندے سے ناراض ہو تا ہے تو جبرئیل کو بلا کر فرماتا ہے کہ میں فلاں سے ناراض ہوں۔ لہذا تم بھی اس سے ناراض ہو جاؤ۔ پس جبرئیل اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ پھر آسمان والوں میں ندا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی فلاں سے ناراض ہے۔ لہٰذا تم بھی اس سے ناراض ہو جاؤ۔ پس وہ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ اور زمین میں اس کے لیے بغض و عداوت رکھ دی جاتی ہے۔‘‘ (مشکوۃ شریف، مطبوعہ مجلس برکات، الجامعۃ الاشرفیہ، مبارکپور، ص:۴۲۵ )۔ اور دیکھنے والوں نے اعتراف کیا ہے کہ صرف حیات مبارکہ میںہی نہیں بلکہ بعد وصال بھی عوام و خواص میں یہ مقبولیت برقرار ہے۔اور کیوں نہ ہو حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان کی زندگی، علم و عمل اور کردار و اخلاق ایسے تھے کہ جن کو دیکھ کر لوگوں کے دلوں میں اللہ تبارک و تعالی اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کا جذبہ بیدار ہو تا تھا۔ آپ کی زیارت اور آپ کے دیدار سے لوگوں کے دلوں میں یاد خدا کی باد بہار ی چلتی تھی۔آ پ کی زندگی اس حدیث پاک کی عملی تصویر تھی۔’’حضرت اسماء بنت یزید (رضی اللہ تعالی عنہا) سے روایت ہے کہ انہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوے سنا: کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ تم میں بہترین آدمی کون ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیوں نہیں۔ فرمایا تم میں سے بہتر آدمی وہ ہیں کہ جب انہیں دیکھیں تو اللہ یاد آجائے۔ روایت کیا اس کو ابن ماجہ نے۔‘‘ (مشکوۃ شریف، مطبوعہ مجلس برکات، الجامعۃ الاشرفیہ، مبارکپور، ص:۴۲۷ )۔اللہ تبارک تعالی حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان کے مرقد انور پر انوار و تجلیات کی بارش فرمائے !ہم سب پر حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان کے فیضان قائم و دائم رکھے ۔اور ہم سب کوحضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔