روح کی فریاد

محمد شہباز عالم مصباحی
ایڈیٹر ان چیف النور ٹائمز
انسان کی حقیقت نہ صرف جسمانی ہے، بلکہ وہ ایک روحانی وجود بھی ہے۔ جسم اور روح کے اس امتزاج کو سمجھنا، دنیاوی زندگی میں کامیابی اور آخرت میں فلاح کے لیے بے حد ضروری ہے۔ جسم مادی دنیا کی نمائندگی کرتا ہے، جبکہ روح ملأ اعلیٰ کی ایک لطیف کرن ہے، جو براہِ راست اللہ کی طرف سے انسان کے وجود میں رکھی گئی ہے۔ جسم کی ضروریات کو پورا کرنا فطری اور جائز ہے، لیکن روح کی پکار کو نظرانداز کر دینا انسان کو اندرونی طور پر خالی اور بے سکون کر دیتا ہے۔
جسمانی اور روحانی توازن کی اہمیت:
جسم اپنی بقا کے لیے خوراک، آرام اور دیگر دنیاوی ضروریات کا محتاج ہے، لیکن روح کی بقا اللہ سے تعلق قائم رکھنے میں ہے۔ اگر ہم صرف جسمانی خواہشات کی تکمیل میں مشغول ہو جائیں تو روح پژمردہ ہو جاتی ہے۔ جسم اور روح کے درمیان توازن قائم رکھنا ہی انسان کی اصل کامیابی ہے۔
قرآن مجید ہمیں بارہا جسمانی ضروریات کو جائز طریقوں سے پورا کرنے کی تلقین کرتا ہے، لیکن ساتھ ہی روحانی ترقی کے لیے عبادات، ذکرِ الٰہی اور اطاعتِ خداوندی کی دعوت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ”
(الرعد: 28)
ترجمہ: خبردار! دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر ہی میں ہے۔
روح کی فریاد کیا ہے؟:
روح کی فریاد وہ احساس ہے جو انسان کو اپنی اصل منزل کی طرف پلٹنے کی دعوت دیتا ہے۔ جب انسان دنیاوی لذتوں اور مادیت میں کھو جاتا ہے، تو روح اس پر بوجھ بن جاتی ہے اور اسے ایک ان دیکھی کمی محسوس ہوتی ہے۔ صوفیاء کے مطابق یہ کمی دراصل اللہ کے قرب سے دوری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ روح پکارتی ہے کہ:
اپنے رب کو پہچانو۔
پانچ وقت نماز کے ذریعے اپنے وجود کو اللہ کے سامنے جھکا کر اس کی رحمت کے سائے میں آؤ۔
روزوں کے ذریعے اپنی خواہشات کو قابو میں رکھو اور اپنے نفس کو پاکیزہ بناؤ۔
ذکر اور دعا کے ذریعے دل کو سکون عطا کرو۔
عبادت کی اہمیت:
صوفیاء کرام فرماتے ہیں کہ عبادت محض ایک فریضہ نہیں بلکہ روح کی غذا ہے۔ جیسے جسم بغیر خوراک کے کمزور ہو جاتا ہے، اسی طرح روح عبادت کے بغیر پژمردہ ہو جاتی ہے۔ عشقِ الٰہی اور محبتِ رسول ﷺ انسان کی روح کو نئی زندگی عطا کرتے ہیں۔ عبادات میں سب سے اہم نماز ہے، جو اللہ سے بندے کا براہِ راست تعلق قائم کرتی ہے۔ روزے، انسان کو اس کے نفس پر قابو پانے کی تربیت دیتے ہیں اور روح کو جسمانی خواہشات کی قید سے آزاد کرتے ہیں۔
ذکرِ الٰہی اور عشقِ حقیقی:
ذکرِ الٰہی روح کو سکون بخشتا ہے اور انسان کو اس کی اصل منزل کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ صوفیاء کے نزدیک عشقِ حقیقی ہی وہ وسیلہ ہے جو انسان کو اپنی ذات کے خول سے نکال کر اللہ کے قرب میں لے جاتا ہے۔ عشقِ الٰہی کا مطلب ہے کہ انسان اپنی تمام خواہشات کو اللہ کی مرضی کے تابع کر دے اور اپنے دل کو ہر قسم کے منفی جذبات سے پاک کر لے۔
صوفیاء کا نقطۂ نظر:
صوفیاء کرام کے مطابق روح عالمِ ارواح سے آتی ہے اور یہ اسی وقت مطمئن ہوتی ہے جب وہ اپنے حقیقی ماخذ، یعنی اللہ سے تعلق قائم کر لے۔ مولانا روم فرماتے ہیں:
“ہر کوئی اپنی اصل کی طرف لوٹتا ہے، پانی دریا کی طرف اور روح اللہ کی طرف۔”
یہ تعلق نماز، روزے، ذکر اور عشقِ الٰہی کے ذریعے مضبوط کیا جا سکتا ہے۔
نتیجہ:
انسانی زندگی جسمانی اور روحانی دونوں پہلوؤں پر مشتمل ہے۔ جسمانی ضروریات کو پورا کرنا ضروری ہے، لیکن روح کی پکار کو بھی سننا اور اس کی تکمیل کرنا انتہائی اہم ہے۔ اگر ہم روحانی پہلو کو نظرانداز کریں تو ہماری زندگی بے مقصد اور بے سکون ہو جاتی ہے۔ اللہ کی عبادت، ذکرِ الٰہی، عشقِ حقیقی اور دین کے احکامات پر عمل پیرا ہونا ہی روح کی تسکین کا ذریعہ ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں اس دنیا کی مشکلات سے نکال کر آخرت کی کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔
“اے اللہ! ہماری روح کو تیری محبت اور یاد سے زندہ رکھ اور ہمیں اپنے قرب کی لذت عطا فرما۔ آمین!”