نفلی حج پر دینی،تعلیمی اور رِفاہی خدمات کوترجیح دینے کی ضرورت

ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی
بلاشبہ حج ایک اہم فریضہ ہے اور اِس کی ادائیگی میں سستی وکاہلی سے کام لینا بھی سخت محرومی کے ساتھ عذاب الٰہی کو دعوت دینا ہے۔ لیکن اِس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہےکہ حج فرض کی ادائیگی کے بعدنفلی حج کے لیے باربارسفر حج پر جانے اوراُس پرایک خطیررقم خرچ کرنےسے افضل ہے کہ صاحبانِ ثروت اپنےاموال کو اَیسےدینی، تعلیمی اور سماجی ورفاہی کاموں میں لگائیں جن کی آج سخت ضرورت ہے۔
ہمارے خیال سے محض ثواب کی نیت سے سال بہ سال نفلی حج کے لیے سفر کرنا،نیز اِس سلسلے میں ایک خطیررقم کا خرچ کرنا اور معاشرتی ودینی سطح پر ترجیحاتی اعمال سے نظریں چرالیناعقلمندی نہیں ہے۔پھر یہ کہ محض ثواب کی نیت سے نفلی حج کے لیے سال بہ سال جانا ایک حد تک تو درست ہے، لیکن اگر نیت، نام ونمود اَور شہرت طلبی کی ہوتویاد رَکھیں کہ ایسا عمل قیامت کے دن عذاب کی شکل میں سامنے آئےگااور نام ونمود اور دکھاوےوالی نیت کے سبب نیک عمل بھی کچھ کام نہ آئےگا۔چناں چہ نفلی حج پر زُور دینے کی بجائے ہمارےصاحبانِ ثروت، بھوکوں کی امداد کو ترجیح دیں، محتاجوں اور بےسہاروں کاسہارا بنیں، بیماروں کے علاج ومعالجے پر توجہ دیں، یتیموں اور ناداروں کی کفالت وخبرگیری کریں، بیواؤں کی ضرورتیں پوری کریں اور مسکین لڑکیوں کی شادی-بیاہ کا انتظام واہتمام کریں۔ کیوں کہ نفلی حج کے مقابلےیہ سب اعمال زیادہ مفید ہیں اور اللہ عزوجل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک محبوب بھی۔
اِس کے علاوہ ہم سبھی کسی نہ کسی نہج پرمشاہداتی تجربات سے اکثر وبیشترگزرتے رہتے ہیں کہ نفلی حج کی کثرت پر زُور دینے والے صاحبان ثروت اِعلانیہ طورپر اور بالالتزام فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی اورسستی سے کام لیتے ہیں، بلکہ بالقصد ترک کردیتے ہیں(الاماشاءاللہ)۔جب کہ اُنھیں معلوم ہونا چاہیے فرائض کی ادائیگی کے بغیر نفلی عبادتیں اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ہرگز مقبول نہیں ۔بنابریں سال بہ سال نفلی حج کے لیے جانے والے صاحبانِ ثروت زکاۃ کی ادائیگی پر کامل توجہ دیں اور فرائض کی بالخصوص پابندی کریں۔اِس کے ساتھ ہی منڈیر تراش تراش کراَپنے کھیتوں اور کھلیانوں کو کشادہ کرانے والےجاگیردار بھی پہلے اپنے اِن غیرشرعی اعمال سے توبہ کریں اور دوسرے کی فصلوں کو نقصان پہنچانا بند کریں، اور پھر اِسی پر بس نہیں بلکہ آئے دن کا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ ایک طرف جولوگ سال بہ سال نفلی حج کے لیے جاتےہوئے نہیں تھکتے دوسری طرف وہی لوگ اپنےپڑوسیوں کے حقوق ادا نہیں کرتے، خود تو آسودہ حالی کے ساتھ زندگی بسر کرتےہیں لیکن اُنھیں کبھی یہ توفیق نہیں ہوتی کہ اپنے پڑوسیوں کی خبرلے لیں کہ وہ بھوکے تو نہیں سورہے ہیں،یہاں تک کہ کمزوروں پر ظلم کرناوہ اپنی خاندانی شان سمجھتے ہیں اور مزدوروں کو اُن کی واجب مزدوری دینے کے تو قائل ہی نہیں ہوتے،جب کہ مزدوروں سے متعلق خصوصی طورپریہ حکم دیا گیا ہے کہ پسینہ خشک ہونے سے پہلے اُن کی مزدوری ادا کردی جائے، مگراِس کےباوجود اُنھیں باربار دوڑایا جاتااور اُن کی عزت نفس کا کچھ بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔ لہٰذاسال بہ سال نفلی حج کے لیے جانےسےبدرجہا بہتر ہے کہ پہلے حقداروں کے حقوق ادا کیے جائیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیںکہ آخری زمانے میں لوگ بلاوجہ کثرت سے حج کریں گے، کیوں کہ مال کی بہتات ہوگی اور سفرحج اِنتہائی آسان ہوگا۔حالاںکہ اُن کا پڑوسی بدحال و تنگدست ہوگامگر وہ اپنے پڑوسی کی ایک پیسے سے بھی غم خواری نہیں کریںگےاور یہ دعوی کریںگے کہ اُنھوں نے ہزاروں خرچ کرڈالے۔(الامالی الخمیسہ للشجری، جلد:۲،ص:۲۲۱،شاملہ)
چناں چہ آج کل یہی ہورہا ہےکہ ہمارے صاحبانِ ثروت ہرسال بڑی پابندی سے سفرحج پرجارہےہیں۔ لیکن اُن کا پڑوسی کس قدر بدحال ہے؟ اِس سے وہ واقف نہیں۔کتنے مزدوروں کی مزدوری اُن کے ذمے ہے؟اِس کا اُنھیں کچھ ہوش نہیں۔ دینی، تعلیمی اور سماجی ترجیحات پر خرچ کرنے کی اُنھیں کچھ شُدبُد نہیں۔ جب کہ اِس سلسلے میں اگر شعور کو بروئے کار لایا جائے تو دین اور دنیا دونوں سطحوں پر ایک انقلابی کارنامہ انجام دیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طورپرصرف ہندوستان سے ہرسال لاکھوں کی تعداد میں لوگ نفلی حج کے لیےبیت اللہ کا سفر کرتے ہیں اور ہرایک سفرِ حج کا صرفہ کم سے کم تقریباً دو-ڈھائی لاکھ تک پہنچ جاتاہے۔ چناںچہ اگر ہمارے صاحبانِ ثروت نفلی حج پرجانے کے بجائے دین وملت کے نام محض ایک لاکھ روپے کا عطیہ پیش کریں تو اِس طرح ہم ہرسال تقریباً اَربوں روپے کا فائدہ حاصل کرسکتے ہیں اور پھراَیسی صورت میں ملک گیر پیمانے پر دینی/ عصری ادارے، جدیدٹیکنالوجی سے مزین اسپتال تیار ہوسکتے ہیں،خواتین کے لیے محفوظ اِنسٹی ٹیوٹ قائم کیے جاسکتے ہیںجن میں ہماری بہو،بیٹیاں اور بہنیں بلاخوف وخطر دستکاری، سلائی- کڑھائی، امورخانہ داری وغیرہ کے سلسلے میں بالخصوص علم وہنرسیکھ سکتی ہیں اور ہمارے معاشرے میں موجود معاشی محتاجوں کی حاجتیں آسانی سے پوری کی جاسکتی ہیں، بلکہ انٹرنیشنل سطح پر ہم مسلمانوں کی تعلیمی ومعاشی مصالح سے متعلق خاطر خواہ کارنامہ انجام دے سکتے ہیں۔
لیکن ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ فریضہ کون انجام دے اور صاحبانِ ثروت کو اِس طرف مائل کیسے کیا جائے ، تو اِس سلسلے میں ہماری حقیر رائے یہ ہے کہ ملک گیر پیمانے پر جتنی بھی علاقائی تنظیمیں ہیں خواہ چھوٹی ہوں یابڑی اور دینی ہوں یا عصری، یہ تمام تنظیمیں اِس تعلق سے علاقے کو پیش نظر رکھتے ہوئے چندترجیحی خطوط تیار کریں اوراُنھیں خطوط کے مطابق اپنے اپنے علاقوں میں سرگرم عمل ہوجائیں اورصاحبانِ ثروت کو اِس طرف توجہ دلائیں کہ نفلی حج سے محض آپ کاذاتی فائدہ ہے، جب کہ دینی اور رِفاہی کاموں سےدین کا فائدہ ہے، قوم وملت کافائدہ ہے اور اِس کے ساتھ آپ رہیں یا نہ رہیں قیامت تک آپ کے حق میں صدقہ جاریہ ہوگا۔
پھراِس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ یہ عمل بڑا ہی جاں سوز اور دل سوز ہے لیکن محال ہرگز بھی نہیں ہے۔ لہٰذا؎
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے شکوۂ قسمت کیسا
ضرب مرداں سے اُگل دیتا پتھر پانی
رابطے کا پتا:
موبائل نمبر:9910865854
ای میل: mjhahan2009@gmail.com