صفحۂ معرفت

حضرت نظام الدین اولیاءؒ کا بیان کردہ سبق آموز واقعہ اور محبتِ الٰہی کا درس

از: ڈاکٹر فیض ارشد

تصوف کی دنیا میں حضرت نظام الدین اولیاءؒ کا مقام منفرد ہے۔ آپؒ نے اپنی زندگی میں بے شمار حکمت آموز واقعات کے ذریعے انسانیت کو ہدایت اور محبت الٰہی کا درس دیا۔ آپؒ اکثر ایک جملہ کہا کرتے تھے: ’’ہم سے تو دھوبی کا بیٹا ہی خوش نصیب نکلا، ہم سے تو اتنا بھی نہ ہو سکا‘‘۔ اس جملے کی تکرار کے بعد آپؒ غش کھا جاتے تھے۔ ایک دن مریدوں نے آپؒ سے سوال کیا: ’’حضرت، یہ دھوبی کے بیٹے والا کیا ماجرا ہے؟‘‘

واقعے کی تفصیل:
حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے واقعہ سناتے ہوئے فرمایا:
ایک دھوبی اور اس کی بیوی شاہی محل کے کپڑے دھونے کا کام کرتے تھے۔ ان کے ساتھ ان کا نوجوان بیٹا بھی تھا جو والدین کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ ان کپڑوں میں شہزادی کے لباس بھی شامل تھے۔ دھوبی کا بیٹا ان کپڑوں کو دھوتے دھوتے شہزادی کے نادیدہ عشق میں مبتلا ہو گیا۔ اس کی محبت نے اس کے مزاج کو بدل دیا۔ وہ شہزادی کے لباس کو انتہائی احتیاط اور محنت سے دھوتا، استری کرتا اور خاص محبت سے تہہ کر کے رکھتا۔

یہ کیفیت والدہ نے نوٹ کی اور دھوبی کو آگاہ کیا۔ والد نے بیٹے کو کپڑے دھونے سے روک دیا۔ لیکن اس محبت سے محرومی نوجوان کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ چند دن کے اندر وہ بیمار ہوا اور اس دنیا سے کوچ کر گیا۔

شہزادی کی بے خبری اور محبت کا انکشاف:
جب شہزادی نے اپنے کپڑوں کے انداز میں تبدیلی دیکھی تو اس نے دھوبن کو بلایا اور پوچھا:
’’میرے کپڑے کون دھوتا تھا؟‘‘
دھوبن نے حقیقت چھپانے کی کوشش کی، مگر شہزادی کی سختی اور غم کے باعث سچائی بتانے پر مجبور ہو گئی۔ شہزادی نے یہ بات سنی تو خاموش ہو گئی، لیکن اس محبت کی گہرائی نے اسے بھی متاثر کیا۔

شہزادی نے پھولوں کا ٹوکرا لیا اور اس نوجوان کی قبر پر جا کر پھول چڑھائے۔ یہ عمل اس کی زندگی بھر جاری رہا۔ ہر سال وہ اس کی قبر پر آتی اور محبت کا خراج پیش کرتی۔

محبتِ الٰہی کا درس:
حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے فرمایا:
’’اگر ایک انسان کسی دوسرے انسان سے بن دیکھے محبت کر سکتا ہے تو اللہ سے بن دیکھے محبت کیوں نہیں کی جا سکتی؟‘‘
آپؒ نے اس واقعے کے ذریعے نماز اور عبادت میں محبت کی اہمیت اجاگر کی۔ آپؒ نے فرمایا:
’’جس طرح دھوبی کا بیٹا اپنی محبت کو کپڑوں کے انداز میں ظاہر کرتا تھا، ویسے ہی اللہ کی محبت کو نماز کے ذریعے ظاہر کرنا چاہیے۔ اگر شہزادی محبت سے تہہ شدہ کپڑوں کے انداز کو پہچان سکتی ہے، تو کیا رب کریم محبت سے پڑھی گئی نماز کو نہیں پہچانے گا؟

محبت، فرض ہے!

آپؒ فرماتے:
’’اللہ کی محبت فرض ہے، یہ کوئی مستحب عمل نہیں۔ نماز، روزے اور دیگر عبادات میں بھی محبت کا تقاضا ہے۔ اگر یہ محبت نہ ہو تو دل پھٹ جاتے، جیسے دھوبی کے بیٹے کا دل پھٹ گیا تھا۔

نبی کریم ﷺ اور محبتِ الٰہی:
حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے فرمایا کہ اللہ نے نماز کا تحفہ نبی کریم ﷺ کے دل کو سکون دینے کے لیے دیا۔ آپؒ نے فرمایا:
’’نماز وہ نسخہ ہے جس کے ذریعے محبت الٰہی کا سکون ملتا ہے۔ نبی ﷺ نماز کے وقت فرمایا کرتے تھے: ’أرحنا بها يابلال‘، یعنی اے بلال، اذان دو اور ہمارے دلوں کو سکون پہنچاؤ۔

اختتامیہ:
حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے اس واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ عبادات کا تعلق صرف جسمانی عمل سے نہیں بلکہ دل کی محبت سے ہے۔ جس طرح دھوبی کے بیٹے کی محبت نے اس کی محنت کو مقبول بنا دیا، ویسے ہی اگر نماز اور عبادات محبت کے جذبے سے کی جائیں تو اللہ کے ہاں قبولیت کا درجہ پاتی ہیں۔ یہ محبت ہمیں نہ صرف رب سے جوڑتی ہے بلکہ ہمارے دلوں کو بھی سکون عطا کرتی ہے۔

لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ اپنی نمازوں اور دیگر عبادات میں خلوص اور محبت پیدا کریں تاکہ وہ رب العالمین کے حضور مقبول ہوں۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

صفحۂ معرفت

روح کی فریاد

محمد شہباز عالم مصباحی ایڈیٹر ان چیف النور ٹائمز انسان کی حقیقت نہ صرف جسمانی ہے، بلکہ وہ ایک روحانی