ادب سرائے

احساس تنہائی ،جزبات اور پروین شاکر

ڈ اکٹر نکہت زہرا

مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے

   یقینا پروینؔ شاکر کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ اردو ادب میں ان کوجو مقام حاصل ہے وہی ان کی انفرادیت ہے ۔یہ انتہائی حساس طبیعت کی مالک ہیں ۔اس لیے ان کی شاعری میں حساسیت اور جذباتیت کو بڑا دخل رہا ہے ۔ان کی شاعری تصورات سے کہیں زیادہ تاثرات کی شاعری ہے ۔ان کے ادراک واحساس،شعور وجزبات تک رسائی حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں کمسن لڑکی کی نفسیات کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے ۔ان کا یہ شعر ان کے نقطہ نظر کی بخوبی عکاسی کرتا ہے ۔

کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے ا س نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

یک لمحہ کی توجہ نہیں حاصل اس کی
اور یہ دل کہ اسے حد سے سو ا چاہتا ہے

پروین ؔشاکر کے اس شعر نے میرے دل جھنجھوڑ کر رکھ دیا ،کیوں کہ کسی کو چاہنا اور کسی سے چاہے جانا دونوں الگ احساسات ہیں ،لیکن کسی کو اتنا شدت سے چاہنا اور پھر اس کہ توجہ نہ ملنایہ انسان کو توڑ دیتا ہے اس سے بڑا دکھ اس کے لیے کوئی نہیں ہوگا ۔پروین ؔشاکر کا محبت کے بارے میں یہ نظریہ ہے کہ جب انسان خود کو کسی کے بغیر ادھورا یا نامکمل محسوس کرنے لگے اور اس کا دل چاہے کہ اس سے اپنے دل کہ ہر بات کہہ ڈالے تب محبت کی ابتدا ہوتی ہے اور پھر وہ کہتی ہیں کہ ؎

میرے پاس سے جو گذر ا میر ا حال تک نہ پوچھا
میں کیسے مان جاؤں وہ دور جا کے رویا
انھوں نے اس تکلیف کو جھیلا اور تنہا جھیلا،اوراس تکلیف نے ان کو تنہائی پسند بنا دیا ۔اور انھوں نے اپنے آپ کو تنہایوں اور غموں سے دور رکھنے کی بہت کوشش کی، شاعری کا سہارا لیا لیکن ان کے دل کی چبھن اور خلش نے ان کو مسلسل زخم دیئے اورو ہ مزیدٹوٹتی چلی گئیںوہ خود فرماتی ہیں کہ۔؎
ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے ٍ گا
کیا خبر تھی کہ رگے جاں میں اتر جائے گا

ان کی شاعری سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پروین شاکر کہیں نہ کہیں توحید کی زبردست قائل تھیں اور ہو ں بھی کیوں نہ توحید محبت کے اصولوں میں سے ہیں ۔محبت میں یہ اور وہ نہیں ہوتا۔۔۔ محبت میں یا تو یہ ہوتا ہے یا وہ۔شرک بہت بڑا گناہ ہو اور شرک تو خدا بھی معاف نہیں کرتا۔ان تمام شکایتوں کے باوجود پروینؔ شاکرنے کسی دوسرے محبوب کی تلاش ہر گز نہیں کی ۔

میں ایسے شخص کی معصومیت پہ کیا لکھوں
جو مجھ کو اپنی خطاؤں میں بھلا ہی لگا

لیکن پروین ؔشاکرکو اس بات کا افسوس ضرور تھا کہ اس کا محبوب جو اس کاشوہر بھی تھا اس نے کسی اور کا دامن پکڑا ۔وہ کہتی ہیں کہ

وہ مجھ کو چھو ڑ کے جس آدمی کے پاس گیا
برابری کا بھی ہو تا تو صبر آجاتا

پروین ؔشاکر کی شاعری میں ان کی ناہمواراور ازدواجی زندگی کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں ان کا سب سے اذیت ناک پہلو تھا شوہر کی خود فریبی اور کم نگاہی تھی اور یہ ایسی اذیت تھی جس نے پروینؔ شاکر کو صاحب ادارک بنا دیا ۔
عقب میں گہر ا سمندر ہے سامنے جنگل
کس انتہا پہ مر ا مہربان چھو ڑ گیا
٭٭٭
جو بادلوں سے بھی مجھکو چھپائے رکھتا تھا
بڑھی ہے دھوپ تو بے سائبان چھوڑ گیا
٭٭٭
رفاقتوں کا اس کو میری دھیان کتنا تھا
زمین لے لی مگر آسمان چھو ڑ گیا


اپنے ہمسفرسے بے توجہی زندگی کے سفر کو سخت بنا دیتی ہے اورپروینؔ شاکر کے شوہر کے اس عمل نے ان کے رویہ ٔ کو سخت بنا دیا تھا۔ محبوب کا ہر جائی پن اور اس کے ترک رفاقت کی پیش قدمی ،ترک تعلق کے راستوں کا کھلا رکھنا اور رشتوں کا روکھاپن انسان کے اندر ایک عجیب سی ہیجانی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ ؎
اس ترک رفاقت پہ پریشاں تو ہوں لیکن
اب تک کے ترے ساتھ پہ حیرت بھی بہت تھی
٭٭٭
یوں بچھڑنا بھی بہت آساں نہ تھا اس سے مگر
جاتے جاتے اس کا وہ مڑ کر دوبار ہ دیکھنا
٭٭٭
جس طرح خواب مرے ہو گئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی

آخرکب تک۔۔۔ برداشت کی بھی حد ہوتی ہے انسان کی تکلیفیں جب برداشت سے باہر ہو جاتی ہیں تووہ غصہ کی شکل میں عیاں ہوتی ہیں۔لیکن انھوں نے خودکو سمجھانے اور بہلانے کی بھی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکیں وہ لکھتی ہیں کہ ؎

اک نہ اک رو ز تو رخصت کرتا
مجھ سے کتنی ہی محبت کرتا
٭٭٭
میرے لہجہ میں غرور آیا تھا
اس کو حق تھا کہ شکایت کرتا
٭٭٭
کچھ تو تھی میری خطا ورنہ وہ کیوں
اس طرح ترک رفاقت کرتا
حقیقت سے آشنا ہونے کے باوجود خودکو اس طرح سے بہلانا اور تسلی دینا کسی سے گہری رفاقت کی غمازی کرتا ہے ۔لیکن پروین شاکر نے امید کا دامن نہیں چھوڑ ا۔انھوں نے اپنے ہمسفر زیادہ کچھ نہ چاہا اور نہ ہی مانگا ، بس یہی چاہتی تھیں کہ اس کی نظر اس کی توجہ ان کے حسین ہونے کی دلیل دیتی رہے ۔ایک عورت کو اپنے ہمسفرسے زیادہ کچھ نہیں چاہئے ہوتا،بس وہ چاہتی ہے کہ اس کے حسن کا بستر سجائے اور عزت کی چادر اٹھائیں ۔
کوئی خاطر نہ مدارات نہ تقریب وصال
ہم تو بس چاہتے ہیں تیری نظر میں رہنا
دوسری جگہ لکھتی ہیں کہ ؎
دو گھڑی میسر ہو اس کا ہمسفر ہونا
پھر ہمیں گوار ا ہے اپنا دربدر ہونا

’’پروین ؔکی شاعری میں دلی جذبات کی عکاسی ہوتی ہے یعنی جو ان کے دل میں ہوتاہے اسی کا نقش وہ اپنی شاعری میں ڈھالتی ہیں ۔انھیں شعر گوئی کا ملکہ اور نسوانی جذبات کے اظہار پر کمال حاصل تھا ۔‘‘
(پروین شاکرکی شاعری ایک تنقیدی جائزہ ۔ڈاکٹر محمد تنویر ۔ص نمبر۔ 14)

پروین ؔشاکر کی شاعری محبوب کی ناقدری اس کی بے توجہی اور اس کے فراق میں گھل جانے کی بھر پور عکاسی کرتی ہے۔ ان کی شاعری جذبات و احساسات اور جز ئیات کی شاعری ہے ۔جو غموں میں شرابور ہونے کے باوجود خود کو اس سے باہر نکالنے کا ہنر پیش کرتی ہے ۔ان کی شاعری محبوب کے دردوغم سے ٹوٹی ہوئی ہے ۔لیکن دوسروں پر اس کو عیاں نہیں کرتی بلکہ خود ہی تنہا اس میں سلگتی رہتی ہے ۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

ادب سرائے

ممتاز نیر : شخصیت اور شاعری( شعری مجموعہ ‘ وفا کے پھول ‘ کے تناظر میں )

احسان قاسمی کچھ لوگ ملٹی وٹامن ملٹی مِنرل کیپسول جیسے ہوتے ہیں ۔ بظاہر ایک کیپسول ۔۔۔۔ لیکن اگر اس
ادب سرائے

مظفر ابدالی كی شاعری پر ایك نظر(صفر سے صفر تك كے حوالے سے)

وسیمہ اختر ریسرچ اسكالر:شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی اردو شاعری کا سفر کئی صدیوں سے جاری ہے جس میں