ظالم کا زوال

ودود ساجد
ایڈیٹر: روزنامہ انقلاب
دوسری جنگ بندی کا پہلا مرحلہ مکمل ہو جانے کے بعد غزہ پر اسرائیل کی یکطرفہ ظالمانہ بمباری جاری ہے۔ 18 مارچ سے اب تک ایک ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ ان میں ایک سال سے لے کر ایک مہینہ تک کے 300 معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ اسرائیل کے جنونی وزیر اعظم نتن یاہو کا دعوی ہے کہ اس کی فورسز غزہ میں حماس کے بندوق برداروں کے خلاف کارروائی کر رہی ہیں۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ کیا یہ 300 معصوم بچے بھی حماس کے ’دہشت گرد‘ تھے؟ یہ سوال تو نتن یاہو سے خود امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو پوچھنا چاہئے تھا جنہوں نے اسرائیل کو نہ صرف پہلے سے زیادہ خطرناک ہتھیار دیدئے ہیں بلکہ دوبارہ بمباری کیلئے بھی ہری جھنڈی دی ہے۔
ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران پوری دنیا کو یقین دلایا تھا کہ وہ نہ تو کوئی جنگ ہونے دیں گے اور نہ ہی کسی دوسرے کی جنگ میں شریک ہوں گے۔ انہوں نے یوروپ اور مشرق وسطی میں جاری جنگوں کو فوری طور پر رکوانے کا بھی وعدہ کیا تھا۔ کسی حد تک انہوں نے یہ کوشش کی بھی اور 20 جنوری کو ان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی‘ ان کی دھمکی اور وعدہ کے مطابق‘ نتن یاہو نے حماس کے ساتھ سہ سطحی معاہدہ پر اتفاق کرتے ہوئے 19 جنوری کو جنگ بندی کے پہلے مرحلہ پر عمل بھی شروع کردیا تھا۔ اس 42 روزہ مرحلہ میں حماس کی گرفت میں موجود اسرائیل کے 100 میں سے 33 شہریوں کی رہائی اور 4 افراد کی لاشوں کی حوالگی ہونی تھی جس کے عوض اسرائیل کو بھی تین ہزار سے زیادہ فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا تھا۔
آخری کھیپ کے طور پر جیسے ہی حماس نے اسرائیلی شہریوں کو بین الاقوامی تنظیم ریڈ کراس کے حوالہ کیا اور جیسے ہی یہ اسرائیلی شہری اپنے گھر پہنچے اسرائیل نے ان 600 فلسطینی قیدیوں کی بسوں کو روک لیا جنہیں معاہدہ کے مطابق رہا کیا جانا تھا۔ اسرائیل نے حماس کے سامنے ایک نئی شرط رکھ دی۔ اس نے مزید چار یرغمالوں کی لاشیں بھی حوالہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس معاہدہ کے مطابق جو فی الواقع سابق امریکی صدر جوبائیڈن کے آخری ایام صدارت میں ہی طے ہوگیا تھا ان چار لاشوں کی حوالگی شامل نہیں تھی۔ بلکہ ان کی حوالگی پر دوسرے مرحلہ میں گفتگو ہونی تھی۔ اسرائیل نے بھی اس معاہدہ پر اتفاق کیا تھا لیکن اسرائیل کی طاغوتی حکومت نے پوری دنیا اور خاص طور پر اپنے ثالث ملکوں کو ذلیل کیا اور حماس کو مجبور کیا کہ اگر اسے ان 600 فلسطینی قیدیوں کی رہائی مطلوب ہے‘ جن کے عوض چھ اسرائیلی یرغمال پہلے ہی اسرائیل کے حوالہ کئے جاچکے ہیں تو اسے مزید چار یرغمالوں کی لاشیں بھی حوالہ کرنی ہوں گی۔ بہر حال حماس نے مزید چار یرغمالوں کی لاشیں حوالہ کیں اور اس طرح 600 فلسطینیوں کی رہائی عمل میں آئی۔
جو بائیڈن کی وساطت سے جو تین سطحی معاہدہ ہوا تھا اس میں جنگ بندی کا پہلا مرحلہ 42 دن کا طے ہوا تھا۔ اس میں یہ بھی طے ہوا تھا کہ اسرائیلی فورسز غزہ سے ایک کلو میٹر پیچھے چلی جائیں گی اور ہر روز امدادی سامان لے کر آنے والے 600 ٹرکوں کو داخل ہونے دیا جائے گا۔ اسی میں یہ تجویز رکھی گئی تھی کہ جنگ بندی کے اس پہلے مرحلہ کے 16 ویں دن دوسرے مرحلہ کی تفصیلات پر گفتگو شروع ہوجائے گی تاکہ جیسے ہی 42 روز پورے ہوجائیں اگلا مرحلہ بھی شروع ہوجائے۔ لیکن نتن یاہو نے ثالث ملکوں کے اصرار کے باوجود دوسرے مرحلہ کیلئے گفتگو شروع نہیں کی اور امدادی ٹرکوں کا داخلہ بھی روک دیا۔
اس دوران خود اسرائیل میں ہی ہزاروں لاکھوں لوگوں نے بار بار دوسرے مرحلہ کی گفتگو شروع کرنے کیلئے حکومت سے مطالبہ کیا۔ میں نے انہی کالموں میں اس اندیشہ کا اظہار کیا تھا کہ جس قاتل و جابر کا نام نتن یاہو ہے وہ دوسرے مرحلہ کی گفتگو سے منحرف ہوسکتا ہے۔ دوسرے مرحلہ کی جنگ بندی کا مطلب غزہ سے اسرائیلی فورسز کو پورے طور پر نکل جانا تھا۔ میرے اس اندیشہ کے ساتھ مزید کئی اور اندیشے بھی تھے۔ یہ کہ جس طرح یرغمالوں کی رہائی کے ہر موقع کو حماس نے ’ایوینٹ‘ میں تبدیل کیا اور جس طرح اپنی عسکری اور افرادی قوت کا مظاہرہ کیا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل کہیں اس کا سراغ نہ لگالے کہ آخر اتنی بڑی تعداد میں حماس کے بندوق بردار کہاں سے آتے ہیں اور کہاں چلے جاتے ہیں۔
اسرائیل جیسے جابر و مکار کیلئے یہ پتہ لگانا مشکل بھی نہیں ہے۔ اس نے ایران کی راجدھانی تہران میں اسماعیل ہنیہ کو شہید کیا‘ لبنان میں حزب اللہ کے صدر حسن نصراللہ کے ساتھ کئی بڑے قائدین کا خاتمہ کیا اور غزہ میں حماس کے سربراہ یحیی سنوار کو بھی شہید کر دیا۔ اس کیلئے ایسے میں کہ جب حماس کے سینکڑوں بندوق بردار درجنوں گاڑیوں سے ایک سے زائد بار نمودار ہوئے ہوں اور گھنٹوں تک حوالگی کی تقریبات چلی ہوں‘ یہ پتہ لگانا کہ وہ کہاں جاکر چھپ جاتے ہیں کوئی ناممکن کام نہیں۔ اب گزشتہ پانچ روز سے جاری وحشیانہ بمباری کے نتیجہ میں اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے کئی اہم کمانڈروں کو مارا جاچکا ہے۔ سرایا القدس کے ترجمان ابوحمزہ کی شہادت کی تصدیق تو خود سرایا القدس نے ہی کردی ہے۔۔۔
اس وقت پوری دنیا اور خاص طور پر پوری عرب دنیا محض ایک جابر و غاصب کے سامنے بے بس بنی ہوئی ہے اور مظلوم روزہ دار فلسطینیوں کے قتل عام کا تماشہ دیکھ رہی ہے۔ عربوں کی اس ناکامی اور بے بسی کا کوئی ایک سبب نہیں ہے۔ اس کے مختلف اسباب ہیں۔ ان سب کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے لیکن یہ ایک الگ اور مستقل موضوع ہے۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ جنگ بندی کے پہلے مرحلہ کے بعد اسرائیل کی طرف سے مظلوم اور نہتے فلسطینیوں پر کئے جانے والے یہ حملے دراصل عربوں پر کئے جانے والے حملے ہیں۔
مشرق وسطی کے نامور تجزیہ نگار مروان بشارہ نے تو واضح طور پر کہا ہے کہ یہ حملہ براہ راست عربوں اور ان کی موجودہ قیادت پر ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے غزہ منصوبہ کے جواب میں عربوں نے ہی دوسرا منصوبہ پیش کیا تھا۔ اگر اس کے باوجود اسرائیل کا وزیر اعظم معصوم بچوں اور عورتوں کا قتل عام کر رہا ہے تو اس کا مطلب تو یہی ہے کہ اسے ان عربوں تک کا بھی کوئی خیال نہیں ہے جو حالات معمول پر آنے کے بعد اس سے سفارتی اور تجارتی مراسم استوار کرنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔
یہ سوال بار بار کیا جائے گا اور کیا ہی جانا چاہئے کہ آخر حماس نے سات اکتوبر 2023 کا حملہ کرکے کیا کوئی بہت بڑی غلطی نہیں کردی؟ اگر ایران نے یا کسی اور نادیدہ طاقت نے اس کی عسکری قوت کو اس حد تک پہنچایا تھا کہ وہ اسرائیل کے شمال میں گھس کر 1200 اسرائیلیوں کو ہلاک کردے اور ڈھائی سو اسرائیلیوں کو یرغمال بناکر بہ حفاظت غزہ کے ان ٹھکانوں پر لے آئے جہاں اب تک اسرائیل نہیں پہنچ سکا ہے تو اس سے آگے کے منصوبوں پر بھی ایران نے یا کسی اور نادیدہ طاقت نے غور ضرور کیا ہوگا۔ ممکن ہے کہ اس پر کوئی غور نہ ہوا ہو کہ معاملہ اس حد تک آگے بڑھ جائے گا۔ لیکن بہر حال یہ امر قابل لحاظ ہے کہ ایک انتہائی غیر متوازن جنگ میں حماس کے بندوق بردار اور اس کی سیاسی قیادت سخت مشکل حالات کے باوجود اسرائیل کا مقابلہ کر رہی ہے۔
تمام مسلم ممالک‘ تمام عرب ممالک‘ یوروپ‘ امریکہ‘ افریقہ اور برطانیہ یہاں تک کہ پوری اقوام متحدہ اسرائیل کو قتل عام سے باز رکھنے کیلئے چیخ و پکار کر رہے ہیں لیکن اسرائیل پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم پر خود اپنے لاکھوں شہریوں کی اپیلوں اور مطالبوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے۔ ایسے میں اگر حماس اپنی جگہ ثابت قدم ہے اور اسرائیل کا جتنا بھی ممکن ہے مقابلہ کر رہی ہے تو یہ کوئی کم بات نہیں ہے۔
سات اکتوبر 2023 سے اب تک فلسطین کے قضیہ کے مختلف ماہرین نے مجھ جیسے ہزاروں لوگوں کے اس سوال کا بار بار جواب دیا ہے کہ سات اکتوبر 2023 کا حملہ کیا ہی کیوں گیا؟ ماہرین کہتے ہیں کہ اس نوعیت کا حملہ پہلی بار ہوسکتا ہے لیکن اسرائیل کی جارحیت پچھلے 70-75 سالوں سے مسلسل جاری ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ حملہ اسرائیل کے مسلسل مظالم کا ہی نتیجہ تھا۔ اسرائیل نے کبھی کسی بھی عالمی قانون یا ہدایت کو تسلیم نہیں کیا۔ یہاں تک کہ اس نے ان معاہدوں تک کی بار بار خلاف ورزی کی جن پر خود اس نے دستخط کر رکھے ہیں۔ وہ 1967 کےاس قبضہ سے بھی دستبردار نہیں ہوا ہے جسے اقوام متحدہ نے اور بعد میں عالمی عدالت نے ناجائز قرا دیدیا تھا۔ وہ فلسطین کے کئی ٹکڑے کرکے ان کے درمیان تو گھس ہی گیا ہے اس کے علاوہ فلسطین کو چاروں طرف سے مسلسل گھیرتا جارہا ہے۔ اس نے پوری دنیا سے جن شرپسند یہودیوں کو فلسطین کے اندر اور اس کے چاروں طرف لاکر مسلح کرکے آباد کیا تھا وہ بھی نہتے فلسطینیوں پر مسلسل ظلم و زیادتی کرتے رہتے ہیں۔ غزہ کے اجڑے ہوئے شہری قاسم ولید نے الجزیرہ کو تفصیل سے بتایا ہے کہ کس طرح پچھلی دو دہائیوں میں اسرائیل نے درجنوں بار بڑی کارروائیاں کرکے لاکھوں لوگوں کو اجاڑا ہے اور ہزاروں کو شہید اور گرفتار کیا ہے۔
فلسطینیوں کا پچھلے 75 سالوں سے یہی مقدر ہے۔ اس وقت ان کا جو قتل عام ہو رہا ہے وہ دراصل نقطہ عروج ہے۔ امتحان تو ہمیشہ مومنوں کا ہی ہوتا ہے۔ اہل فلسطین اور خاص طور پر اہل غزہ نے یہ تو ثابت کر دیا ہے کہ وہ فی الواقع پوری دنیا کے مسلمانوں سے کہیں زیادہ ایمان پر ثابت قدم ہیں۔ لیکن اسرائیل میں جو ہمہ جہت تباہی آئی ہے اس کی روشنی میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فلسطین کو کرہ ارض سے مٹانے کے بعد بھی وہ سکون سے نہیں رہ سکے گا۔
اسرائیل کا صدر مسلسل نتن یاہو حکومت کے خلاف بول رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں نتن یاہو کے خلاف متحد ہوگئی ہیں۔ بدعنوانی کے مختلف مقدمات میں عدالتوں میں نتن یاہو گھر گیا ہے۔ اسرائیل کے لاکھوں شہری مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی 200 بڑی کمپنیوں کی یونین نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ اسرائیل کی اقتصادیات کو ٹھپ کرنے جارہی ہیں۔ یمن سے حوثی جماعت بھی میزائل داغ رہی ہے۔
یہ خیال رکھنا چاہئے کہ یمن اسرائیل سے دوہزار کلو میٹر دور ہے۔ اتنی دور سے کوئی موثر حملہ نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن پچھلے ایک ہفتہ سے اس کے حملوں کے سبب اسرائیل کے سارے ایرپورٹ اور اس کی فضائی سروس متاثر ہوئی ہے۔ گزشتہ پورے ہفتہ میں لاکھوں اسرائیلی سو نہیں سکے ہیں اور بار بار انہیں سائرن بجنے کے بعد زیر زمین بنکروں میں بھاگ کر چھپنا پڑتا ہے۔ اس عمل میں بیسیوں لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ تازہ اطلاع یہ ہے کہ تین مہینہ کی خاموشی کے بعد حزب اللہ نے بھی جنوبی اسرائیل میں حملے شروع کردئے ہیں اور لوگوں کو وہاں سے نکالا جارہا ہے۔ وہاں سے بھاگے ہوئے 70 ہزار اسرائیلی شہری ابھی تک واپس اپنے گھروں کو نہیں جاسکے ہیں۔ اللہ کیلئے کیا مشکل ہے۔ کیا عجب کہ اسرائیل کا زوال شروع ہوگیا ہو۔
(شکریہ، روزنامہ انقلاب)