ادب سرائے

اکیسویں صدی کی خواتین ناول نگاروں کے حاوی موضوعات

2000سے 2020 تک

وسیمہ اختر

ریسرچ اسکالر: جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

انسانی زندگی کا جو ایک معاشرتی نظام ہے وہ اس کائنات کے حرکات و سکنات کا جزلاینفک ہے جسے عموماً مردوں کی نگاہ سے دیکھا اور دکھایا جاتا رہا ہے ۔لیکن گزشتہ چند صدیوں میں عورتوں نے اس معاشرے میں اپنی حصے داری کو نہ صرف سمجھا اور محسوس کیاہے بلکہ اس میں شرکت کے لحاظ سے بھی فعال اور متحرک رہی ہیں۔ یہ عالمی ادب کی طرح اردو ادب میں بھی اپنے جذبات و احساسات اور افکار و خیالات کا اظہار اپنے مخصوص انداز میں کر تی آرہی ہیں ۔آج وہ دنیا کے دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ شعر و ادب کے میدان میں بھی مردوں سے کسی بھی طرح پیچھے نہیں ہیں بلکہ بڑے بے باکانہ انداز میں مردوں کے شانہ بشانہ چل رہی ہیں اور اپنی تخلیقات میں مختلف موضوعات جیسے سماجی مسائل، خواتین کے حقوق ،خاندانی رشتے ،محبت ،روحانیت اور نفسیاتی پہلوؤں کو پیش کر رہی ہیں۔مثلاًانہوں نے اپنے ناولوں کے ذریعے خواتین کے تجربات کو زبان دی ،اکثر سماجی روایات کو چیلنج کیا اور مضبوط اور خود مختار خواتین کے کرداروں کو پیش کرنے کے ساتھ مرد و عورت کی کمزوریوں،عیاریوں ،مکاریوں اوردیگر معاملات کو جنہیں لوگ کہنے یا سننے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں ان کو بھی اتنی ہی سنجیدگی اور بے باکی سے اپنے ناولوںمیں پیش کیا ہے کہ قارئین اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے ۔گویا اس مختصر سے مضمون میں شامل ناولوں کا مطالعہ کرنے سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسے خود خواتین نے اپنے ناولوں میںکس انداز سے دیکھا ، سوچااور برتا ہے۔
اکیسویں صدی کو 2000 سے 2020تک محدود کروں تو اردو کی خواتین ناول نگاروں کے ناول اپنی نئی صورت حال سے متاثر نظر آتے ہیں اور اخلاقی، اصلاحی، معاشرتی، فکری ،نفسیاتی اور خانگی مسائل کے وہ عناصر جو کہیں کھو چکے تھے، وہ ایک نئے رنگ میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ جو نہ صرف موجودہ صورتحال کے معیار و وقار کو برقرار رکھتے ہیں، بلکہ اپنے اس نئے رجحان کے ذریعے تخلیقی ادب کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ اس میں صرف موجودہ دور کی ناول نگار شامل نہیںہیں بلکہ بعض ایسی ناول نگار بھی شامل ہیں جو پرانی تخلیق کار ہیں اور ناول نگاری کے میدان میں اپنا ایک معتبر نام بناچکی ہیں، جس کے نتیجے میں ہمارے سامنے اکیسویں صدی کی ابتدائی دو دہائیوں میں خواتین ناول نگاروں کی ایک طویل فہرست تیار ہو جاتی ہے۔
ساجدہ زیدی :مٹی کے حرم (2000)، ناصرہ شرما: زندہ محاورے(2001)،خالدہ حسین: کاغذی گھاٹ (2002)، بانو قدسیہ: حاصل گھاٹ (2003)،ترنم ریاض: مورتی(2004)، برف آشنا پرندے(2009)،ثروت خان: اندھیرا پک (2005) نسیم انجم: نرک (2007)،عذرا عباس: میں اور موسیٰ (2007)،صادقہ نواب سحر: کہانی کوئی سناؤ متا شا(2009)،افسانہ خاتون: دھند میں کھوئی روشنی (2009)، نجمہ ہیل:اندھیرا ہونے سے پہلے (2010)،نجم محمود: جنگل کی آواز (2011)،شائستہ فاخری شہر سے کچھ دور (2012)، نا دیدہ بہاروں کینشان (2013) صدائے عندلیب برشاخ شب (2014) ، غزالہ قمر اعجاز: قطرے پر گہر ہونے تک (2016)، نوشابہ خاتون: خزاں کے بعد (2017)، فیلم احمد بشیر: طاؤس فقط رنگ (2018)،ثروت خان: کڑوے کریلے (2020) وغیرہ اس فہرست میں شامل ہیں۔
ان کے علاوہ اور بھی کامیاب اور اہم ناول ہیں، جن میں ناول نگاروں نے بڑی فنکاری سے ماضی کے ساتھ ساتھ عصری زندگی کے بعض ایسے گوشوں کو ہمارے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے جن پر اب تک خواتین نے کھل کر نہیں لکھا تھا۔ ناول میں تخیل سے کہیں زیادہ انسانی جذبات اور حقائق کی ترجمانی کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے اسی لیے ناولوں میں انسانی جذبات کی بھرپور عکاسی کے نمونے ملتے ہیں۔ 2000 سے 2020 کے اثناء میں خواتین ناول نگاروں کے شائع شدہ وہ ناول جو میرے زیرمطالعہ رہے ان میںبنیادی طور پر عصری مسائل کے تین اہم پہلوؤں کو دیکھاجاسکتا ہے:
(1) خانگی مسائل (Family Issues)
(2 )نفسیاتی مسائل(Psychological Issues)
(3) معاشرتی مسائل (Social Issues)
خانگی مسائل:
ان ناولوں میں بعض ناول ایسے ہیں جن میں خانگی مسائل کو وسیع پیمانے پر دکھایا گیا ہے اور موجودہ دور کی عکاسی بھی بڑی ہنر مندی سے کی گئی ہے۔ ان میں بنیادی طور پر خانگی مسا ئل کے دو اہم پہلوؤں ، خاندان کے اندرونی تنازعات اور اس سے پیدا ہونے والے بڑے چیلنجز کو فنی چابکدستی سے پیش کیا گیا ہے۔ جس کو صادقہ نواب سحر کے ناول ” جس دن سے ” میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔مثلاًناول کا مرکزی کردار’’ جیتو‘‘ ایک ایسے پریوار سے تعلق رکھتا ہے جس میں اس کا باپ اس کی ماں کو چھوڑ کر دو شادیاں کر لیتا ہے اور اس کی ماں بھی بعد میں کسی دوسرے آدمی کے ساتھ رہنے لگتی ہے ایسے میں جیتو کا اپنے والدین سے باہمی پیار کا رشتہ نہیں بن پاتا اور اس کی پرورش جس ماحول میں ہوتی ہے اس سے اس کا دماغ اکثر مختلف قسم کی الجھنوں سے دوچار رہتا ہے اس کی پڑھائی بھی ٹھیک سے نہیں ہو پاتی ۔ایک بار ساتویں میں اور پھر بارہویں میں فیل ہو جاتاہے۔ یہی نہیں جب اس کی اپنے باپ سے لڑائی ہوتی تو وہ ماں کے پاس چلا جاتا وہاں بھی اس کو ماں کی شفقت نہیں ملتی کیونکہ وہ ورکنگ ہونے کے ساتھ ساتھ جن کے ساتھ رہتی تھی ان کے معاملات بھی دیکھا کرتی تھیں اس طرح کے حالات نے جیتو کو بہت کٹھور بنا دیا تھا:
’’تو میری عزت نہیں کرتا!‘ ڈیڈی کا پھر وہی غصہ!
ہاں! نہیں کرتا، کیوں کہ آپ نے شادی کی! وہ آپ کی بیوی ہیں، میری ماں نہیں!
پتہ نہیں کیسے کیسے میں نے اپنی عمر کے بیس سال تک ڈیڈ کی مار کھائی ہیں۔۔۔۔‘‘
(ناول‘‘جس دن سے’’، ص-67-68)
اس طرح اس ناول میں شوہر اور بیوی کے خراب رشتے اور شوہر کی شادیوں سے بچے کی زندگی کے کرب والم ان کے اکیلے پن اور بے راہ روی کو ناول نگار نے بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
ساجدہ زیدی کے ناول ’’مٹی کے حرمــ‘‘ میں بھائیوں کا لالچ جائیداد کو لے کر، رشتوں کی قربانی اور اپنوں کی عیاری کی تصویر کشی کی گئی ہے:
’’ تو یہ سب تیرے جیٹھ کے کرتوت ہیں؟ مگر جائیداد تھی تو تیرے شوہر کے نام؟
جی تھی تو۔ پھر رفتہ رفتہ بھائی صاحب ہر چیز بحیثیت مختار کل اپنا نام پڑھواتے گئے، بہانہ یہ تھا کہ بھائی تمہیں تو اکثر دستخط کرنے کی بھی فرصت نہیں ہوتی، کام انکا رہتا ہے۔ اگر مختار کل بنادو گے تو کم از کم یہ پریشانی تو نہ رہے گی۔ چنانچہ وہ کو ٹھی اور باغوں کے مختار کل ہو گئے اور کھیتوں پر ان کا نام چڑھ گیا۔‘‘
اور بیٹی تیرے شوہر کو کبھی یہ خیال نہ آیا کہ یہ بھائی امانت میں خیانت بھی کر سکتا ہے۔‘‘ ’’جی نہیں.. وہ جتنے شریف اور ایمان دار خود تھے اتنا ہی دوسروں کو بھی سمجھتے تھے۔ وہ اکثر کہتے تھے بغیر ثبوت کے کسی کی نیت پر شبہ کرناخود جرم ہے، بلکہ گناہ ہے۔‘‘(ناول‘‘مٹی کے حرم’’، ص-61)
کلثوم کے شوہر نے اپنے بڑے بھائی کی شفقت و محبت میں ان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اپنی حیات میں ہی انہیں اپنی جائیداد کا مختار کل تو بنا دیا لیکن جیسے ہی اس کا انتقال ہوا کلثوم کے جیٹھ نے اپنی عیاری و مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کلثوم اور اس کی یتیم بچیوں کو جائیداد سے عاق کر کے گھر سے نکال دیا۔
والدین سے متعلق مسائل کو بھی ان میں سے بعض ناولوں میں دکھایا گیا ہے۔ جن کو ترنم ریاض کے ناول برف آشنا پدندے، ناصرہ شرما کے ناول ‘زندہ محاورے اور عذرا عباس کے ناول” میں اور موسیٰ ”میں دیکھا جا سکتا ہے۔ مثلاًناول ”برف آشنا پرندے” میں نجم کے بڑے بھائی بشیر خان کی اولاد اعلیٰ تعلیم کے لیے ملک سے باہر جاتی ہے لیکن ان کا اپنے گھر کا رخ بہت مشکل سے ہوتا ہے یہاں تک کہ اپنے والد کے انتقال میں بھی نہیں پہنچتے جس کے سبب ان کی تجہیز و تدفین کا کام بھی پڑوسی ہی انجام دیتے ہیں :
”مگر کبھی پلٹ کر نہ آئے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کی اولا د مغربی ملکوں میں سکونت پذیر ہوگئی، دو دو چار چار برس بعد آنے کے لئے۔ اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں وہ لاہور میں اپنے عالی شان بنگلے میں تنِ تنہا انتقال کر گئے۔ پورٹھیکیو میں سال بھر سے بیکار بیٹھی دو دیسی اور ایک غیر ملکی گاڑی چپ چاپ سوگ مناتی رہیں اور دوسرے روز کہیں ہم سایوں نے انہیں تصویروں کا البم سینے پر دھرے بے جان لیٹا ہوا پایا تو بیٹوں کو مطلع کیا گیا، جن کا بروقت پہنچنا مشکل ہونے کے سبب پڑوسیوں نے ہی تجہیز و تکفین کی۔ بعد میں بیٹوں نے غیر ملکی کرنسی بھجوا کر باپ پر ہواخرچہ چکا دیا تھا، کہ کبھی جائداد فروخت کرنے وطن آنا ہی تھا۔”(برف آشنا پرندے، ص-۷۱)
اولاد کی بے حسی کو اس اقتباس میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ والدین جو اپنی زندگی کی پوری جمع پونجی لگا کر اپنا خون پسینہ ایک کر کے اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیجتے ہیں تاکہ وہ بہتر انسان بنیں اور کامیاب زندگی گزار سکیں لیکن وہی بچے جب بہترین ذریعہ معاش حاصل کر لیتے ہیں تو ان کی زندگی میںسب سے پہلے جس کی اہمیت کم ہو جاتی ہے وہ ان کے ماں باپ ہوتے ہیں۔ ایسے میں بے حسی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ ماں باپ کی تجہیز و تکفین کے لیے آنا تک انہیں نصیب نہیں ہوتا۔
(2) نفسیاتی مسائل
نفسیاتی مسائل نہ صرف انسانی دماغ، جذبات اور سماجی بہبود (Social Well Being)کو متاثر کرتے ہیں بلکہ ان کے سوچنے کے عمل، محسوس کرنے کا مادہ، آپسی معاملات یا تناؤ کو سنبھالنے کا جذبہ، دوسروں سے تعلق رکھنے او ر ساتھ ہی ساتھ اپنی زندگی کے لیے صحت مند انتخاب کرنے کے عمل پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ابتدا ئے آفرینش سے اب تک جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا۔
زیر مطالعہ ناولوں میں نفسیاتی مسائل سے متعلق بنیادی طور پر سماجی نفسیات ، خواتین پر اس کے اثرات اور خراب تعلقات کی وجہ سے بچوں پر پڑنے والے اثرات پر زور دیا گیا ہے۔ جن کو ہم شائستہ فاخری کے ناول ”صدائے عندلیب بر شاخ شب ”، افسانہ خاتون کے ناول ’’دھند میں کھوئی روشنی” ،ترنم ریاض کے ناول ’’مورتی‘‘ اور خوشنودہ نیلوفر کے ناول’’ آوئٹرم لین‘‘ وغیرہ میں دیکھ سکتے ہیں۔ جیسے ناول ”صدائے عندلیب بر شاخ شب ــ” میں شائستہ فاخری نے ”نازنین” کے ذریعے ایک ایسی لڑکی کی زندگی کو پیش کیا ہے جس کی شادی تو ہوتی ہے لیکن شادی کے بعد ازدواجی زندگی کی جو آسائشیں ہوتی ہیں مثلاً شوہر کی معیت اس کے ساتھ وقت گزارنا ایک خوشحال زندگی بسر کرنا وغیرہ نصیب نہ ہو سکیں۔ کشو (نازنین کا شوہر) بزنس کے سلسلے میں اکثر ملک سے باہر رہتا ہے اور نازنین گھر پر اکیلی اس کو یاد کرتی رہتی ہے۔ ہفتے یا مہینے میںکبھی گھر آتا بھی تو دونوں کے تعلقات اچھے نہ رہتے اکثر لڑائیاں ہو جایا کرتیں ۔لہٰذا وہ ان سب چیزوں سے عاری تھی جن کی ایک عام لڑکی اپنی شادی کے بعد خواہش مند ہوتی ہے اس کے برعکس کشو کی خود غرضی و بے پروائی اسے ایک نفسیاتی مریضہ بننے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ایسے میںوہ اپنے اکیلے پن کو دور کرنے کے لیے بستی میں رہنے والی ”ستارہ” میں اپنی زندگی کا مقصد تلاش کر لیتی ہے۔ کیونکہ وہ اپنے اکیلے پن کے باوجود خود کے وجود کو اپنے شوہر کی پہچان سمجھتی تھی اور اسے ایسا سمجھنے کے لیے اس کے معاشرے نے، معاشرے کے لوگوں نے اور خود اس کے شوہر نے مجبور کیا ہے کہ تمہاری پہچان تمہاری حفاظت تمہارے شوہر کی وجہ سے ہے، تمہاری جو زندگی ہے ،تمہارا جو وجود ہے وہ تمہارے شوہر کی امان ہے اور اس کی ہی ضمانت ہے:
”ہم عورتیں اپنے شوھروں کو لے کر کتنی خوش فہمیوں کا شکار رہتی ہیں۔ اور ان خوش فہمیوں کے پنجڑے کو پہلی رات ہی شوہر اپنی بیوی کے لئے تیار کر دیتا ہے۔ اور پھر اپنے حصار میں لے کر اسے یہ سمجھا تا ہے کہ اس ایک مرد کے بغیر یہ ساری دنیا اس جیل خانے کی طرح ھے جہاں عورتوں کا صرف استحصال ھوتا ھے۔شوہر کی دھلیز چھوڑا نہیں کہ باھر بیٹھے مردوں کی شکل میں گدھ اس کی بوٹیاں نوچ ڈالیں گے۔ خوف کے خمیر سے تیار کی گئیں عورتیں پھر چاھے کچھ بھی ھو جانے اپنے شوھر کی دھلیز نہیں چھوڑتیں۔ میں بھی نہیں چھوڑنا چاہتی تھی آخری دم تک اس لئے میں کشو کے ساتھ محبت کا ڈراما کھیل رھی تھی…. ایک طویل ڈرامہ”….(ناول‘‘صدائے عندلیب بر شاخ شب، ص-۷۳-۸۳)
ناول ”نادیدہ بہاروں کے نشاں” میںانسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کو ناول کے کرداروں کے اندرونی جذبات اور تجربات کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔ مثلاً:عیان مرزا شک کی بنا پر اپنی شریک حیات علیزہ( جس سے وہ بہت محبت کرتا ہے)کو طلاق دے دیتا ہے ۔اور حقیقت سے روبرو ہونے پر اسے اپنے اس عمل پر بہت شرمندگی و پشیمانی ہوتی ہے کہ جذبات میں بہہ کر اس نے اپنے ایک اچھے اور خوبصورت رشتے کوخراب کر لیا۔ اس کے بعدسب سے پہلے وہ اپنے اس گناہ کی پردہ پوشی کرنا چاہتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کے ازالہ کے لیے ایک ایسا کام کرتا ہے جو آنے والے دنوں میں اس کی بیوی کی پوری زندگی کو تباہ و بر باد کردیتا ہے اور اسے واقعتا ایک نفسیا تی مریضہ بننے پر مجبور کردیتا ہے ۔اس گناہ کو ہمارے معاشرے میں ’’حلالہ‘‘کا نام دیا جاتا ہے۔
حلالہ ایک ناسور ہے ۔شریعت مطہرہ نے اسے ملعون قرار دیا ہے ،جس سے نہ صرف اس انسان کی زندگی تباہ و برباد ہو تی جس نے یہ عمل کیا بلکہ اس انسان سے جڑے تمام لوگ ذہنی و نفسیاتی مرض کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ان ہی معاملات کواس ناول میںبڑے ہی سلیقے سے بیان کیا گیا ہے جس سے قاری نہ صرف خودکو ہم آہنگ کرتے ہیںبلکہ اپنے اطراف وجوانب کے معاملات کو بھی محسوس کر پاتے ہیں۔علیزہ کی نفسیاتی کیفیت کا اندازہ ناول کے اس اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے:
’’گم سم اپنے آپ میں ڈوبی، بکھرے بال، ویران آنکھیں اور زرد چہرے والی۔ پگلی سی دکھنے والی علیزہ کو دونوں مردوں نے مل کر عدت پوری کرنے کے لئے اس طرح کمرے میں لے جا کر چوکی پر بٹھا یا جیسے مانجھے میں لے جا کر دلہن بٹھایٔ جاتی ہے‘‘(ناول ”نادیدہ بہاروں کے نشاں”، صــــــــ۔۷۹)
اس طرح ایک ہنستی کھیلتی ،اپنی زندگی کے خوبصورت رشتوں میںمگن لڑکی ،جس کی زندگی میں سو طرح کے اتار چڑھاؤتھے مگر محبت کرنے والے اپنے شوہر کے ساتھ اسکے ہر برے برتاؤکے باوجود نباہ کر رہی تھی، وہ اچانک اپنے شوہر کے اس گناہ سے بکھر کر تباہ و برباد ہو جاتی ہے اور اسکی حالت ایک زندہ لاش سے زیادہ کچھ نہیں رہتی ۔
(3) معاشرتی مسائل
خانگی مسائل اور نفسیاتی مسائل کے ساتھ ساتھ موجودہ دور کی زیادہ تر خواتین ناول نگاروں نے اپنے ناولوں میں معاشرتی مسائل کو بھی سنجیدگی سے پیش کیاہے۔ جن میں پدرانہ نظام (Patriarchy) کے مسائل کے ساتھ اس کی بدلتی ہوئی نوعیت، خواتین کو در پیش عصری مسائل اور معاشرے کے لئے جو عصری چیلنجز ہیں (مردانہ شاونزم Male Chauvinism) ( ، تانیثیت(Feminism)، ذات پات، امیرو غریب کا فرق اور خواجہ سراؤں کی زندگی سے متعلق مسائل) وغیرہ شامل ہیں۔مثلاً ناول ’’کاغذی گھاٹ‘‘ میں جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ طبقہ کی تصویر کشی ، ناول’’میں اور موسیٰ‘‘ میں امیر و غریب میںفرق کے سبب بستیوں کا اجڑنا ، اورناول ’’نرک‘‘ میں خواجہ سراؤں کی زندگی میںدرپیش مختلف معاملات وغیرہ جیسے معاشرتی مسائل شامل ہیں۔
بعض مرد اپنے معاشرتی اور ثقافتی اختیار کا استعمال کر کے خواتین کی آزادی اور فطرت نے جو انہیں حقوق عطا کیے ہیں ان کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔مثلاًکچھ کرداروں کی جانب سے عورتوں کی تعلیم، روزگار یا فیصلہ سازی میں مداخلت کرنا وغیرہ۔اس رویے کو اصطلاح میں ’’میل شاونزم (Male Chauvinism)‘‘کہتے ہیں۔ جن کی مثالیں مختلف ناولوں میں خواتین ناول نگاروں نے اپنے ناولوں کے مرد کرداروں کے ذریعے ان کی سوچ، ان کی طاقت اور عورتوں پر بے جا استبدادکے مختلف طریقوں کو پیش کیا ہے ۔جیسے ناول ’’حاصل گھاٹ‘‘میں ارجمند (جوشاد ی کے بعد پاکستان سے امریکہ شفٹ ہو جاتی ہے اوراپنی والدہ کے انتقال کے بعد والد کو اپنے پاس بلا لیتی ہے) کے ابا جی اس کے کپڑے پہننے کے طریقے ،اس کے نوکری کرنے ، رہن سہن ،بچے کی پرورش اورگھر کے کام وغیرہ پر اکثر و بیشتر ٹوکتے رہتے ہیں اور مرد سے گھر کے کام کرانے کو عورت کی بد لحاظی سمجھتے ہیں لیکن ارجمند اپنے والد کے اعتراضات سے متاثرنہیں ہوتی:
’’ہر وہ آدمی جو Male Chauvinism میں یقین رکھتا ہے ایسے ہی سمجھتا ہے ابو کہ مرد مظلوم ہے اور عورت آپے سے باہر ہو رہی ہے۔ یہ عورت سے بے انصافی ہے۔ سراسر بے انصافی عورت سو جوتیاں بھی کھارہی ہے اور سو پیاز بھی۔
لیکن اپنی مرضی سے اپنی چوائس سے’میں عرض کرتا ہوں۔ آپ کی سوچ ٹیڑھی ہے ابو۔۔۔۔ پلیز سیدھا سوچنا شروع کریں۔۔۔۔ وقت بدل چکا ہے۔ اب پتھر اور دھات کا زمانہ نہیں۔‘‘(ناول ’’حاصل گھاٹــ‘‘،ص-44)
ہمارے معاشرے میں اگر کوئی عورت کبھی اس طرح کااحتجاج کرتی ہے تو وہ فوراً بدتمیز بدلحاظ کہلانے لگتی ہے ۔اس لیے یہاں عورت کو اپنے ان تمام حقوق کے حصول کے لیے جو فطرت نے اسے عطاکیئے ہیں کئی طریقوں سے مردوں کے ساتھ ساتھ میل ڈومیننٹ سوسائٹی (Male Dominant Society) کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں پر وہ اپنے ہی گھر میں اپنے باپ یا شوہر کے کسی معاملے، کسی فیصلے پر احتجاج کرتی ہے یا مکالمہ کرتی ہے تو یہ معاشرہ اسے بد اطوار یا بے ادب قرار دیتا ہے۔ لہٰذا ارجمند اپنے باپ کی مردانہ ذہنیت سے ادب کے دائرے میں احتجاج کرتی ہے اور تہذیب کا دائرہ قائم رکھتے ہوئے اپنے حق کو بھی حاصل کرنا جانتی ہے۔
گویااس طرح کے ناولوں میں یہ دکھانے کی کوشش کی گیٔ ہے کہ کس طرح خواتین ان چیلنجز کا مقابلہ کرتی ہیں اور سماج کو ایک طاقتور پیغام بھی فراہم کرتی ہیں۔
ان کے علاوہ معاشرتی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے عصر حاضر میں ایک اہم نظریہ’’ تانیثیت‘‘ کا بھی ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں مرد اور عورت کے درمیان سماجی، سیاسی، معاشی اور اقتصادی طور پر نابرابری کو دیکھا جا سکتا ہے۔ مثلاًناول ”اندھیرا پگ” میں ثروت خان نے راجستھان کے کلچر ، تہذیبی اقدار اور ثقافتی نظام سے متاثر ہوکر وہاں کے لوگوں کے رہن سہن، طور طریقے،رسم و رواج،سماجی و تہذیبی امور اور اور ان کے اصول وضوابط کی پاسداری وغیرہ کو بے حد موثر انداز میں پیش کیا ہے ۔ روپی (ناول کا مرکزی کردار)کی کم عمری میں شادی ہو جاتی ہے اور وہ بیوہ ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اس کا سر منڈوا کر ایک بد رنگ ساڑی میں، شاندار حویلی ہونے کے باوجود تنگ وتاریک ، سیلن زدہ، بدبوداراور چاروں طرف سے بند کوٹھری میں سماجی رسوم کے تحت غیر انسانی سطح پر زندگی گزارنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اور کوئی خیرو خبر لینے والا بھی نہیں ہوتا جسے دیکھ کرماں کی ممتا بیتاب ہو اٹھتی ہے اور وہ اپنی نند (راج کنور)کوجو شہر میں رہتی ہے، خط لکھتی ہے کہ وہ روپی کو آکر لے جائیں ۔روپی شہر جاکر ڈاکٹر کے امتحان میں ٹاپ 10 میں پانچویں رینک حاصل کرتی ہے جس کی خبر گائوں میں ہو جاتی ہے تو خوب ہنگامہ ہوتا ہے اور روپی کے خاندان والے راج کنور کے انتقال کرجانے پر روپی کو پھرسے اس اندھیرے پگ سے گزرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ اس طرح بیوگی کے سبب اپنے سگوں کے ذریعے ہونے والایہ قبیح رویہ ا سکے اندر تانیثی بغاوت پیدا کر دیتا ہے اور وہ گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہے:
’’ آخر ایک روز اس نے موقع دیکھ کر دھونی کو ایک پرچہ تھمایا اور سخت ہدایت دی کہ کسی کو نہ دکھائے۔ سیدھے راجکمار کی مدد لے اور شہر کے پولس تھانے میں جا کر، یہ پرچہ وہاں دے دے۔۔ دھونی نے جب دریافت کرنا چاہا کہ اس میں لکھا کیا ہے تو روپی نے اتنا کہا۔۔
اس سے ہمیں نیائے ملے گا۔ بس تو اتنا سمجھ اور یہ کام بڑی چترائی سے کرنا، مردانے کا پہرہ سخت ہے، ڈرنا بالکل نہیں۔۔۔ میںتیرے ساتھ ہوں‘‘۔(ناول‘‘اندھیرا پگ’’، ص-150)
اس طرح ایک دن وہ اپنے ہی گھر والوں کے خلاف پولیس میں رپورٹ کرواتی ہے اور جب پولیس بھی دھوکا دیتی ہے تو وہ اپنی نوکرانی (دھونی ) کو لے کر حویلی چھوڑ جاتی ہے اور کوئی اسے روکتا بھی نہیں۔
اکیسویں صدی کے ناولوں کے اس مختصر سے جائزے کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو ادب میں خواتین ناول نگاروں کا کردار بے حد اہم رہا ہے۔ انہوں نے نہ صرف ادب کو نئے زاویے اور موضوعات دیے بلکہ معاشرتی مسائل، خواتین کے حقوق اور زندگی کی پیچیدگیوں کو اپنے منفرد انداز میں پیش کیاہے۔ ان کی تحریریں اردو ادب کی ترقی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں اور آج بھی نئی نسل کی خواتین قلم کاروں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ان کی تخلیقات نے نہ صرف ادب میں خواتین کی حیثیت کو مضبوط و مستحکم کیا بلکہ قارئین کو بھی ایک نئی سوچ اور فکردی ہے۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین ناول نگاروں نے صرف عورتوں کے اوپر یا صرف عورتوں کے مسائل پر ہی ناول نہیں لکھے ہیں بلکہ انہوں نے اس میدان میں اپنا دائرہ بڑھاتے ہوئے دوسرے موضوعات مثلاً : فرد کی تنہائی،اقدار و روایت کی ٹوٹتی بکھرتی شکلیں،تعلیمی بیداری،اولڈیج ہوم کلچر،جنسی جبر و تشدد،نئی نسل کا ذہنی انتشار اور منفی رویہ،نفسیاتی الجھن،فرقہ وارانہ تصادم،سیاسی تشددوغیرہ کو بھی اپنے ناولوں میں جگہ دی ہے۔مجموعی طور پر 21ویں صدی کی خواتین ناول نگاروں کے یہاں موجود تمام پہلوئوں اور جہتوںکو مختلف اسالیب میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

ادب سرائے

ممتاز نیر : شخصیت اور شاعری( شعری مجموعہ ‘ وفا کے پھول ‘ کے تناظر میں )

احسان قاسمی کچھ لوگ ملٹی وٹامن ملٹی مِنرل کیپسول جیسے ہوتے ہیں ۔ بظاہر ایک کیپسول ۔۔۔۔ لیکن اگر اس
ادب سرائے

مظفر ابدالی كی شاعری پر ایك نظر(صفر سے صفر تك كے حوالے سے)

وسیمہ اختر ریسرچ اسكالر:شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی اردو شاعری کا سفر کئی صدیوں سے جاری ہے جس میں