ہیتی باشندوں کی عارضی حیثیت ختم، شہریت پر عدالتی فیصلہ

امریکہ نے ہیتی باشندوں کی عارضی حیثیت منسوخ کر دی، سپریم کورٹ نے پیدائشی شہریت محدود کرنے کی راہ ہموار کر دی۔
امریکی حکومت نے کیریبین ملک ہیتی کے شہریوں کو دی گئی عارضی تحفظی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد امریکہ میں برسوں سے مقیم ہزاروں ہیتی باشندوں کو جبری واپسی کے خدشات لاحق ہو گئے ہیں۔ محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ ہیتی میں حالات بہتر ہو چکے ہیں، اس لیے اب ان افراد کی واپسی کو مناسب قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ پروگرام 3 اگست کو ختم ہو جائے گا اور اس کی منسوخی 2 ستمبر سے مؤثر ہو گی۔یاد رہے کہ ہیتی کے باشندے 2010 کے تباہ کن زلزلے کے بعد سے اس عارضی حیثیت سے فائدہ اٹھاتے آ رہے ہیں، جس کے تحت وہ امریکہ میں قانونی طور پر رہائش پذیر ہونے اور روزگار حاصل کرنے کے اہل تھے۔ اب اس فیصلے سے لگ بھگ پانچ لاکھ افراد متاثر ہوں گے، جن میں سے کئی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے امریکہ میں مقیم ہیں۔
محکمہ ہوم لینڈ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا مقصد امیگریشن نظام کی شفافیت بحال کرنا ہے تاکہ یہ حیثیت واقعتاً “عارضی” ہی رہے۔ محکمہ نے ہیتی باشندوں کو واپسی کی تیاری کے لیے ایک موبائل ایپ کے استعمال کی بھی تجویز دی ہے۔تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ موجودہ زمینی حقائق کو نظر انداز کرتا ہے، کیونکہ ہیتی میں اب بھی شدید عدم استحکام، تشدد، اغوا اور طبی سہولتوں کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ٹریول ایڈوائزری بھی اب تک ہیتی سفر سے گریز کی ہدایت دیتی ہے۔
ادھر، ایک اور اہم پیش رفت میں، امریکی سپریم کورٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کے اُس حکم نامے کی راہ میں حائل ایک بڑی قانونی رکاوٹ ہٹا دی ہے جس کا مقصد پیدائشی شہریت (Birthright Citizenship) کو محدود کرنا تھا۔ عدالت نے 3 کے مقابلے میں 6 ججوں کی اکثریت سے فیصلہ دیا کہ زیریں عدالتیں پورے ملک میں انتظامی احکامات کو روکنے والے فیصلے جاری نہیں کر سکتیں۔اس حکم نامے کا مقصد ان بچوں کو خودکار شہریت سے محروم کرنا تھا جو امریکہ میں غیر قانونی یا عارضی ویزا پر مقیم والدین کے ہاں پیدا ہوتے ہیں۔ عدالت نے ابھی اس حکم کی قانونی حیثیت پر براہ راست فیصلہ نہیں دیا، تاہم لبرل ججوں نے اس پر اختلافی نوٹ لکھا کہ یہ امریکی قانون سے متصادم ہے۔
ادھر سپرنگ فیلڈ، اوہائیو میں مقیم ہیتی تارک وطن فریٹز ڈیسیئر، جو 2022 میں امریکہ پہنچے تھے، نے اس فیصلے پر شدید تشویش ظاہر کی۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے فیصلے سے روزمرہ زندگی پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں اور ہر کوئی اپنے مستقبل سے خوفزدہ ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات امیگریشن پالیسیوں کو سخت کرنے کی اس وسیع مہم کا حصہ ہیں جو ٹرمپ انتظامیہ دوبارہ فعال کر رہی ہے، جس میں وینزویلا، افغانستان اور دیگر ممالک کے شہریوں کے لیے بھی انسانی بنیادوں پر دیے جانے والے پروگرام محدود کیے جا رہے ہیں۔