سپریم کورٹ نے جج پر ریمارکس واپس لیے،اصلاح کو مداخلت نہیں کہا

سپریم کورٹ نے الہٰ آباد ہائی کورٹ کے جج پر ریمارکس حذف کیے، کہا مقصد توہین نہیں، بلکہ قانون کی اصلاح تھا
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے الہٰ آباد ہائی کورٹ کے ایک جج کے خلاف اپنے گذشتہ فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ کا مقصد کسی بھی جج کی توہین، تذلیل یا انھیں عوامی سطح پر شرمندہ کرنا ہرگز نہیں ہوتا۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ اگر کوئی معاملہ اس حد کو پار کر جائے جہاں قانون کی بالادستی متاثر ہو، تو عدالت کا فرض بنتا ہے کہ وہ اصلاحی اقدامات کرے، تاکہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد برقرار رہے۔جسٹس جے بی پاردی والا نے عدالت میں کہا کہ انھیں چیف جسٹس آف انڈیا کی طرف سے 4 اگست کو دیے گئے فیصلے پر نظرثانی کی باقاعدہ درخواست موصول ہوئی ہے۔ اسی بنیاد پر یہ معاملہ دوبارہ سماعت کے لیے فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ عدالت نے 4 اگست کے فیصلے میں جن نکات یا پیراگراف میں الہٰ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس پرشانت کمار کے خلاف سخت ریمارکس دیے تھے، انھیں اب حذف کیا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ عدالت نے اپنے پرانے فیصلے میں جسٹس پرشانت کمار کو ان کی ریٹائرمنٹ تک فوجداری مقدمات کی سماعت سے روک دیا تھا اور انھیں سینئر جج کے ساتھ بینچ میں بیٹھنے کی ہدایت کی تھی۔ اب عدالت نے اس فیصلے کے ان نکات کو واپس لے لیا ہے اور آئندہ کی کارروائی کو مکمل طور پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پر چھوڑ دیا ہے۔سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ وہ پوری طرح تسلیم کرتی ہے کہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہی “ماسٹر آف دی روستر” ہیں، یعنی وہی اس بات کے مجاز ہیں کہ کس جج کو کون سا مقدمہ سننا ہے۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ کا کوئی قدم انتظامی معاملات میں مداخلت کے زمرے میں نہیں آتا۔عدالت نے کہا کہ قانون کی حکمرانی برقرار رکھنے کے لیے کبھی کبھار مداخلت ناگزیر ہو جاتی ہےمگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کسی فرد کی ساکھ یا عزت مجروح کی جائے۔ سپریم کورٹ کا مقصد صرف عدلیہ کے وقار اور شفافیت کو قائم رکھنا ہے۔