خبرنامہ

سپریم کورٹ میں وقف قانون پر سماعت، عبوری حکم پر غور

سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی قانون کی آئینی حیثیت چیلنج، عدالت بعض متنازع دفعات پر عبوری حکم دینے پر غور کر رہی ہے۔

سپریم کورٹ میں بدھ کے روز حالیہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس سنجیو کھنّہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مقدمے میں کئی اہم نکات پر غور کیا اور جمعرات کو دوبارہ سماعت کرنے کا فیصلہ کیا۔ عدالت نے کہا ہے کہ وہ اس قانون کی چند دفعات پر عبوری حکم جاری کرنے پر غور کر رہی ہے۔ سماعت کے دوران عدالت نے واضح کیا کہ جن جائیدادوں کو پہلے ہی وقف قرار دیا جا چکا ہے، انھیں منسوخ نہیں کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی عدالت اس شق پر بھی غور کر رہی ہے جس کے مطابق اگر کسی پراپرٹی کے سرکاری ہونے پر تنازع ہو تو جب تک مجاز افسر فیصلہ نہ کر لے، اسے وقف نہیں مانا جا سکتا۔ عدالت نے یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ وہ اس التزام پر بھی عبوری روک لگا سکتی ہے جس کے تحت وقف کونسل اور وقف بورڈ میں دو غیر مسلم افراد کی شمولیت لازمی قرار دی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے قانون کے نفاذ کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں پیش آنے والی پرتشدد کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ قانون کے نفاذ کے خلاف احتجاج کا مطلب یہ نہیں کہ نظام پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی قانون کے مثبت پہلوؤں کو بھی سامنے لایا جانا چاہیے تاکہ ایک متوازن گفتگو ہو سکے۔ عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ چونکہ سرکاری وکیلوں کو مکمل طور پر سنا نہیں جا سکا، اس لیے جمعرات دوپہر دوبارہ سماعت کی جائے گی۔
اس قانون کے خلاف اب تک دس سے زائد مختلف درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں۔ ان میں اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اور رکن پارلیمان اسدالدین اویسی، مہوا موئترا، منوج جھا اور دیگر افراد اور تنظیمیں شامل ہیں جنہوں نے قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔ سماعت کے بعد مہوا موئترا نے سوشل میڈیا پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ پرامید ہیں کہ ان کی درخواست پر مکمل سماعت ہوگی اور عدالت قانون کے متنازع حصوں پر فیصلہ دے گی۔
دوسری جانب بی جے پی کے زیرانتظام چھ ریاستوں، جیسے ہریانہ، مدھیہ پردیش، راجستھان، مہاراشٹر، چھتیس گڑھ اور آسام نے اس قانون کے حق میں درخواستیں دائر کی ہیں۔ ان ریاستوں کا مؤقف ہے کہ اگر یہ قانون منسوخ کیا گیا تو اس کے قانونی اثرات ریاستی انتظامیہ اور زمین کے معاملات پر مرتب ہوں گے۔وقف ایک ایسا نظام ہے جس میں کوئی مسلمان شخص اپنی جائیداد کو اللہ کے نام پر فلاحی یا مذہبی مقاصد کے لیے مستقل طور پر وقف کر دیتا ہے۔ ایک بار وقف ہونے والی جائیداد کو واپس نہیں لیا جا سکتا، نہ ہی اسے بیچا یا کسی کو منتقل کیا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی اپنے سابقہ فیصلوں میں واضح کیا ہے کہ ایک بار جو جائیداد وقف ہو جائے، وہ ہمیشہ وقف ہی رہتی ہے۔
نئے قانون کے تحت وقف کے لیے ضروری ہے کہ دینے والا شخص کم از کم پانچ سال سے مسلمان ہو اور وہ اس جائیداد کا اصل مالک ہو۔ وقف بورڈ کے اختیارات میں کمی کی گئی ہے اور اب وہ خود سے کسی جائیداد کو وقف قرار نہیں دے سکتا۔ یہ اختیار اب ضلع کلکٹر کو منتقل کر دیا گیا ہے جو متنازع جائیدادوں پر اپنی رپورٹ حکومت کو بھیجے گا۔ اگر کلکٹر کی رپورٹ کے مطابق کوئی زمین سرکاری ہے، تو وہ زمین وقف کے دائرے سے نکل جائے گی اور ہمیشہ کے لیے سرکاری جائیداد سمجھی جائے گی۔
وقف کونسل میں پہلے تمام ارکان کا مسلمان ہونا ضروری تھا، لیکن نئے قانون کے تحت دو غیر مسلم افراد کو بھی رکن بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلم اراکین میں دو خواتین کی شمولیت بھی لازمی قرار دی گئی ہے۔ حکومت کے زیر قبضہ زمین پر اگر وقف بورڈ دعویٰ کرے تو فیصلہ کلکٹر کے اختیار میں ہوگا کہ وہ اس دعوے کو تسلیم کرے یا نہیں۔ اس وقت ملک میں وقف بورڈ کے پاس تقریباً 8.7 لاکھ جائیدادیں رجسٹرڈ ہیں جو 9.4 لاکھ ایکڑ زمین پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ان جائیدادوں کی مالیت 1.2 لاکھ کروڑ روپے کے قریب بتائی جاتی ہے، اور اس لحاظ سے بھارت دنیا میں سب سے زیادہ وقف جائیدادوں والا ملک مانا جاتا ہے۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

خبرنامہ

لاس اینجلس میں جنگل کی آگ سے بڑے پیمانے پر تباہی، اموات کی تعداد 24ہوئی، امدادی کوششیں جاری

امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لا اینجلس میں ایک ہفتے سے لگی بھیانک آگ مزید 8 جانیں نگل
خبرنامہ

چین کبھی بھی امریکہ کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا

واشنگٹن(ایجنسیاں) صدر بائیڈن نے پیر کو خارجہ پالیسی پر اپنی آخری تقریر میں بڑا دعویٰ کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر