شناخت

سلطان التارکین، حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی

فتی قاضی فضل رسول مصباحی

اولیاءِ کاملین کی سرزمین ہند میں جن ہستیوں نے رشد و ہدایت، تزکیۂ نفس، اشاعتِ طریقت اور خدمتِ خلق کا ناقابلِ فراموش باب رقم کیا، اُن میں حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی کی شخصیت ایک درخشاں آفتاب ہے، جن کی حیاتِ مبارکہ ترکِ دنیا، سلوکِ طریقت اور تربیتِ اُمت کا حسین امتزاج ہے۔آپ کا اسمِ گرامی سید اشرف اور لقب “جہانگیر سمنانی” ہے۔ آپ سنہ 708ہجری میں شہر سمنان (ایران) کے ایک شاہی و روحانی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی، سلطان سید ابراہیم، سمنان کے بادشاہ تھے، مگر حضرت سمنانی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے بچپن ہی سے دنیاوی جاہ و حشمت کو زہد و ورع پر قربان کر کے روحانیت کی راہوں کو اختیار کیا۔امتِ محمدیہ کے سلسلہ ولایت میں دو نفوسِ قدسیہ ایسے ہیں جنھوں نے تاج و تخت کو تج کر معرفتِ الٰہی کا جام نوش کیا:
حضرت ابراہیم بن ادہم اور حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمھمااللہ کا یہ ترکِ دنیا ہی وہ پہلا قدم تھا جس نے آپ کو روحانی عظمتوں کی بلندیوں تک پہنچایا۔ حضرت مخدوم سمنانی نے اپنے سفرِ ہجرت کا آغاز ملتان سے فرمایا جہاں تین روز حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کی خانقاہ میں قیام فرما کر اُن سے فیوضِ قادریہ و خلافت حاصل کی۔
مخدومِ جہان نے وقتِ رخصت ارشاد فرمایا:

“فرزندِ اشرف! شیخ علاءُ الحق پنڈوی تمہاری آمد کے مشتاق ہیں، جلد اُن کی بارگاہ میں پہنچو۔”
حضرت مخدوم سمنانی دہلی، بہار شریف سے ہوتے ہوئے، بالآخر پنڈوہ شریف (مالدہ، بنگال) پہنچے۔ حضرت شیخ علاءُ الحق نہ صرف صاحبِ حال بلکہ صاحبِ قال بھی تھے۔ آپ نے نہایت جلالت و محبت کے ساتھ حضرت مخدوم کا استقبال فرمایا اور سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں بیعت سے سرفراز فرمایا، نیز سلسلہ قادریہ، سہروردیہ، نقشبندیہ و دیگر سلاسل کی خلافت و اجازت سے نوازا۔حضرت مخدوم علیہ الرحمۃ نے بارہ برس اپنے شیخ کی خدمت میں قیام فرما کر شدید مجاہدات و ریاضات کے ذریعہ منازلِ سلوک، فنا، بقا اور عرفان کی تکمیل فرمائی۔ آپ نے فقط علم حاصل نہیں کیا بلکہ اپنی ذات کو علم کا عملی پیکر بنا دیا۔808 ہجری میں تکمیلِ سلوک کے بعد، آپ کے شیخ نے آپ کو ہند کی طرف رشد و ہدایت کے لیے روانہ فرمایا۔ حضرت نے سفر در سفر کرتے ہوئے آخرکار اجودھیا کے قریب ایک مقام کچھوچھہ کو اپنا مرکزِ فیض بنایا۔یہاں آپ نے ایک ایسی خانقاہ کی بنیاد رکھی جو “مدرسۂ سلوک و تصوف” بن گئی۔ ایک ایسی روحانی یونیورسٹی جس سے آج بھی اہلِ دل علم و معرفت کے دریا بہا رہے ہیں۔
حضرت مخدوم سمنانی نے رشد و ہدایت، تہذیبِ اخلاق، خدمتِ خلق، اور تعلیمِ عرفان کو اپنی حیاتِ مبارکہ کا نصب العین بنا لیا۔آپ کی سب سے معروف و مقبول کتاب ”لطائفِ اشرفی“ ہے جو علمِ باطن اور رموزِ تصوف کا ایسا گنجینۂ اسرار ہے جو سالکینِ طریقت کے لیے چراغِ راہ ہے۔حضرت کی روحانی تاثیر کا عالم یہ ہے کہ آج بھی لاکھوں اہلِ درد، آپ کی بارگاہ سے روحانی شفا، باطنی سکون، اور سحر و آسیب سے نجات حاصل کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو ”غوثُ العالم“ کہا جاتا ہے، یعنی پوری دنیا کے لیے مددگار، اور “دستگیر” یعنی فریاد رس و حاجت روا۔
غوث کے لغوی معنیٰ مدد کرنے والا کے ہیں، اور حقیقت میں حضرت سمنانی کی پوری حیات، غیروں کے لیے پناہ اور اپنوں کے لیے روحانی شفا ہے۔

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

شناخت

مبلغ اسلام حضرت علامہ محمد عبد المبین نعمانی مصباحی— حیات وخدمات

از:محمد ضیاء نعمانی مصباحی متعلم: جامعہ اشرفیہ مبارک پور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ معاشرے کی کامیابی اور قوم
شناخت

فضا ابن فیضی شخصیت اور شاعری

17 جنوری آج مشہور معروف شاعر فضا ابن فیضی کا یوم وفات ہے فیض الحسن فضا ابن فیضی یکم جولائی