بی جے پی کی قیادت میں اچانک تبدیلی

بی جے پی نے شمیِک بھٹاچاریہ کو مغربی بنگال کا نیا ریاستی صدر مقرر کیا ہے، جنھیں جماعت کی اندرونی اختلافات اور آئندہ اسمبلی انتخابات جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دیرینہ اور مخلص کارکن شمیِک بھٹاچاریہ کا نام اچانک ریاستی صدر کے عہدے کے لیے سامنے آیا، جس نے تمام سیاسی قیاس آرائیوں کا رخ بدل دیا۔ حالانکہ اس سے قبل کئی دیگر رہنماؤں کے نام زیرِ غور تھے، لیکن شمیِک کا ذکر نہیں ہو رہا تھا۔بتایا جاتا ہے کہ دہلی سے پارٹی کے قومی صدر جے پی نڈا کی جانب سے آنے والی فون کال نے ساری صورتحال کو بدل کر رکھ دیا۔ کہا جا رہا ہے کہ دہلی کے حالیہ دورے میں شمیِک کو اس تقرری کے متعلق اشارہ دے دیا گیا تھا۔شمیِک بھٹاچاریہ کا ریاستی صدر بننا نہ صرف ان کے لیے باعثِ حیرت تھا بلکہ سیاسی حلقوں میں بھی یہ خبر غیر متوقع سمجھی جا رہی ہے۔ وہ طویل عرصے تک بی جے پی کے ترجمان اور تنظیمی امور کے نگران رہ چکے ہیں، اور حال ہی میں راجیہ سبھا کے رکن بھی بنائے گئے۔
سیاسی سفر
شمیِک 1974 میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے جڑے، اور پھر جنوبی ہاوڑہ میں بی جے پی کے یوتھ ونگ کے جنرل سیکریٹری بنے۔ اس عہدے پر وہ مسلسل گیارہ سال فائز رہے۔ بعد ازاں وہ بی جے پی کے ریاستی جنرل سیکریٹری کے طور پر بھی تین مدتوں تک کام کرتے رہے۔وہ پارٹی کی قومی ورکنگ کمیٹی اور ریاستی کور کمیٹی کے بھی رکن رہے ہیں۔ 2006 میں انھوں نے پہلی بار شایام پور سے اسمبلی الیکشن لڑا، لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ 2014 میں بوشیر ہاٹ سے لوک سبھا کا الیکشن ہار گئے، لیکن اسی سال بوشیر ہاٹ ساؤتھ اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل کی۔اس کے بعد 2019 میں دم دم سے لوک سبھا کا الیکشن ہارے، اور 2021 کے اسمبلی الیکشن میں بھی شکست کا سامنا کیا۔ تاہم 2024 میں بی جے پی نے انہیں راجیہ سبھا بھیج دیا۔
اندرونی چیلنجز
شمیِک کو صدر بننے کے بعد پارٹی کے اندرونی اختلافات کو سلجھانے کا سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے۔ مغربی بنگال میں اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے جا رہے ہیں، اور اس سے قبل پارٹی کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ان کے لیے آزمائش سے کم نہیں۔بی جے پی کی گزشتہ کامیابی 77 اسمبلی نشستوں تک محدود تھی، جو اب گھٹ کر 65 رہ گئی ہے۔ کئی ایم ایل ایز یا تو دوسری پارٹی میں چلے گئے یا ضمنی انتخابات میں بی جے پی کو شکست ہوئی۔سابق ریاستی صدر دلیپ گھوش حالیہ مہینوں میں پارٹی پروگراموں سے دور نظر آئے ہیں، جس پر ان کی ناراضگی کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔ شمیِک نے عندیہ دیا ہے کہ وہ پارٹی میں پرانے اور نئے لیڈروں کے درمیان کشیدگی کو ختم کر کے ایک متحد قیادت سامنے لائیں گے۔
صدر بننے کی وجوہات
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ شمیِک کی شبیہ ایک تعلیم یافتہ، شہری متوسط طبقے کے نمائندہ لیڈر کے طور پر بنی ہوئی ہے، جو کلکتہ اور مضافاتی بنگالی علاقوں میں پارٹی کو فائدہ دے سکتی ہے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے اپوزیشن لیڈر شوبھندو ادھیکاری سے قریبی تعلقات نے بھی انھیں اس منصب تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔شمیِک کا ماننا ہے کہ پارٹی چہرہ نہیں، بلکہ ٹیم ورک سے جیتے گی۔ تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کی تقرری اس بات کا اشارہ ہے کہ اگلے اسمبلی انتخابات میں شوبھندو ادھیکاری ہی پارٹی کے مرکزی چہرے ہوں گے۔
انتخابی تیاری
صدر بننے کے فوراً بعد شمیِک نے واضح کر دیا کہ وہ انتخابی تیاریوں میں مصروف ہو چکے ہیں۔ اپنی پہلی پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا:
“اگلا الیکشن بنگال کے لیے فیصلہ کن ہوگا۔ یہ سرمایہ کاری کے بہاؤ کو روکنے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور بنگالی نوجوانوں کی نقل مکانی کو روکنے کا الیکشن ہوگا۔ یہ بنگالی ہندو شناخت کے تحفظ کا آخری موقع ہے۔”پارٹی کے بعض حلقوں کا خیال ہے کہ کلکتہ سے تعلق رکھنے والے شمیِک کی صدارت سے پارٹی کو شہری ووٹ بینک میں فائدہ ملے گا۔ ان سے پہلے کے صدور دلیپ گھوش جھاڑگرام اور مسکانت جنوبی دیناجپور سے تعلق رکھتے تھے، جب کہ اپوزیشن لیڈر شوبھندو کا تعلق مشرقی مدنی پور سے ہے۔