مظفر نگر تھپڑ معاملے میں بچے کے تمام تعلیمی اخراجات ریاست اٹھائے گی

سپریم کورٹ نے مظفر نگر تھپڑ معاملے میں یوپی حکومت کو متاثرہ بچے کے تمام تعلیمی و سفری اخراجات برداشت کرنے کا حکم دیا، واقعے پر ملک گیر غم و غصہ ظاہر ہوا۔
نئی دہلی۔ سپریم کورٹ نے مظفر نگر کے متنازع “تھپڑ کیس” میں بڑا فیصلہ سناتے ہوئے اترپردیش حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ متاثرہ مسلم طالب علم کے تمام تعلیمی اخراجات بشمول آمدورفت کا کرایہ خود برداشت کرے۔ عدالت نے واضح الفاظ میں کہا، “یہ اخراجات برداشت کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے،” اور ساتھ ہی یہ اختیار بھی دیا کہ چاہے تو ریاست کسی امدادی ادارے سے مدد لے یا متعلقہ اسکول کو ادائیگی پر آمادہ کرے۔یہ حکم معروف سماجی کارکن تشار گاندھی کی جانب سے حقِ تعلیم قانون 2009 کے تحت دائر کی گئی عوامی مفاد کی عرضی پر سماعت کے دوران جاری کیا گیا۔ عرضی اس وقت دائر کی گئی تھی جب اگست 2023ء میں سوشل میڈیا پر ایک شرمناک ویڈیو وائرل ہوا، جس میں ایک سرکاری اسکول کی معلمہ ایک سات سالہ مسلمان بچے کو محض مذہبی بنیاد پر تھپڑ مارتی اور دیگر طلبہ کو بھی ایسا کرنے کا کہتی دکھائی گئیں۔
سماعت کے دوران سینئر وکیل شادان فراست نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ریاست کی جانب سے اب تک نہ تو مکمل فیس ادا کی گئی اور نہ ہی یونیفارم کا خرچ دیا گیا، جب کہ ٹرانسپورٹ چارجز صرف حالیہ دنوں میں ادا کیے گئے۔ انھوں نے عدالت سے درخواست کی کہ ریاستی حکومت براہ راست اسکول کو ادائیگی کرے تاکہ بچے کے کسان والدین کو مزید شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
سپریم کورٹ نے اس موقع پر ریاست کو ہدایت دی کہ وہ آر ٹی ای ایکٹ کی دفعہ 17 (1) کے تحت تمام تسلیم شدہ اسکولوں میں والدین کو جسمانی یا ذہنی تشدد کے خلاف شکایت درج کرانے کے نظام سے باخبر کرے۔ عدالت پہلے بھی اسکولوں میں آئینی اقدار کو فروغ دینے کے لیے واضح رہنما اصول جاری کر چکی ہے۔
یہ واقعہ نہ صرف ایک بچے کی تذلیل کا سبب بنا بلکہ پورے ملک میں شدید ردِ عمل کا باعث بھی بنا۔ اپوزیشن لیڈروں راہل گاندھی، اکھلیش یادو اور اسدالدین اویسی نے اس واقعے کو “امتیازی زہر” اور “معاشرے پر بدنما داغ” قرار دیا۔ اویسی نے یوپی حکومت کی بے عملی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ یہ واقعہ دراصل ایک خطرناک پیغام دیتا ہے کہ “مسلمانوں کو بغیر کسی جرم کے بھی ذلیل کیا جا سکتا ہے۔”
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو انصاف کی سمت ایک اہم قدم مانا جا رہا ہے، جو نہ صرف ایک مظلوم بچے کی تعلیمی راہ ہموار کرے گا بلکہ ریاستی ذمہ داری کے تصور کو بھی نئی تقویت دے گا۔