روح افزا تنازعہ: دہلی ہائی کورٹ کی بابا رام دیو پر سخت برہمی

بابا رام دیو کے “روح افزا” کو “شربتِ جہاد” کہنے پر دہلی ہائی کورٹ نے شدید ردعمل دیتے ہوئے اسے مذہبی ہم آہنگی کے خلاف غیر ذمہ دارانہ اور گمراہ کن بیان قرار دیا۔
نئی دہلی: یوگا گرو بابا رام دیو ایک بار پھر تنقید کی زد میں آ گئے ہیں اور اس بار معاملہ مشہور مشروب “روح افزا” پر ان کے متنازعہ بیان سے جڑا ہوا ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے ان کے “شربتِ جہاد” جیسے غیر ذمہ دارانہ تبصرے کو نہ صرف ناقابلِ قبول قرار دیا بلکہ سخت ناراضی کا اظہار بھی کیا۔ عدالت نے واضح الفاظ میں کہا کہ اس قسم کے بیانات نہ صرف نازیبا ہیں بلکہ ملک کی سماجی ہم آہنگی کو بھی شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔جسٹس امِت بنسل کی عدالت میں جب ہم درد دواخانہ کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت ہوئی، تو جج نے کہا کہ بابا رام دیو کا یہ بیان عدالت کی روح کو جھنجھوڑنے والا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ کاروباری مقابلے کی آڑ میں مذہب کو گھسیٹنا اور اس قسم کی اصطلاحات کا استعمال انتہائی افسوسناک اور گمراہ کن ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ خوراک یا مشروبات جیسی عام مصنوعات کو “جہاد” یا کسی بھی مذہبی یا سیاسی نعرے سے منسوب کرنا سخت غیر ذمہ داری کی علامت ہے، خصوصاً جب ایسا بیان کسی معروف شخصیت کی جانب سے آئے۔ عدالت نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ بابا رام دیو جیسے بڑے نام سے ایسی بات کی توقع نہیں کی جا سکتی جو مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچائے۔
ہم درد کمپنی نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ ان کا مشروب “روح افزا” گزشتہ سو سال سے لاکھوں گھرانوں کا اعتماد حاصل کیے ہوئے ہے اور بابا رام دیو کا بیان نہ صرف ان کے کاروباری مفاد کو ٹھیس پہنچاتا ہے بلکہ عام لوگوں کے جذبات کو بھی مجروح کرتا ہے۔ عدالت نے اس شکایت کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے آئندہ سماعت اگلے ہفتے مقرر کر دی ہے، اور امکان ہے کہ بابا رام دیو کو صفائی پیش کرنے کے لیے عدالت طلب کیا جائے۔
عدالت کے دباؤ کے بعد بابا رام دیو کے وکیل نے یقین دہانی کرائی ہے کہ متنازعہ ویڈیو ہٹا دی جائے گی۔ یاد رہے کہ “روح افزا” ایک یونانی طرزِ علاج پر مبنی پرانا اور روایتی مشروب ہے جو نہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان و دیگر ممالک میں بھی یکساں مقبول ہے۔ اس کے مقابلے میں، بابا رام دیو کی کمپنی پتنجلی نے اپنا مشروب مارکیٹ میں پیش کیا ہے اور غالباً اسی تجارتی مسابقت کے پسِ منظر میں ہم درد کے مشروب پر تنقید کی گئی تھی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ دہلی ہائی کورٹ کا یہ سخت رویہ ممکنہ طور پر مارکیٹنگ کی غیر اخلاقی روش کے خلاف ایک اہم مثال قائم کر سکتا ہے، تاکہ مستقبل میں برانڈز مذہب یا جذباتی پہلوؤں کو ہتھیار نہ بنائیں۔