کبھی اخبار پڑھ لینا کبھی اخبار ہو جانا

پروفیسر سرورالہدیٰ
معلوم نہیں ادا جعفری بدایونی نے کس کیفیت میں یہ بات کہی تھی۔ تہذیبی زندگی کا نقشہ وقت کے ساتھ تبدیل ہو جاتا ہے اور کچھ ایسی قدریں ہیں جو بہرحال اپنی معنویت پر اصرار کرتی ہیں۔اخبار پڑھنا جب عادت بن جائے،تو سمجھا جاتا ہے کہ کوئی بے حسی ہے جو خبروں کی شدت اور حرارت کے لیے خطرہ ہے۔اخبار پڑھنے والوں کو صرف خبر ہی نہیں بلکہ نظر بھی فراہم کرتا ہے۔یہ بات کب سے ہم سنتے آئے ہیں۔کبھی اخبار کے لئے تخیل کا لفظ بہت ضروری سمجھا جاتا تھا۔یہ بھی سمجھا جاتا تھا کہ خبروں کے ساتھ کچھ ایسے تجزیے اور تبصرے بھی ہوں گے یا ہوتے ہیں جن سے ہماری بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔اختر الایمان نے اپنی نظم ’’شیشے کا آدمی‘‘ میں جس انسان کو پیش کیا ہے وہ اسی عادت کی گرفت میں ہے۔اخبار دیکھنا دانشوری کی جب علامت بن جائے تو ایسے میں،خاص طور پر شہر کی زندگی مصنوعی بن جاتی ہے۔ خبر کے ساتھ شعور اور شعور کے ساتھ نظر اور بصیرت جیسے الفاظ رفتہ رفتہ کچھ اجنبی سے ہوتے جاتے ہیں۔روز مرہ کی زندگی کو جو مسائل درپیش ہیں اخبار انہیں اگر موضوع نہیں بناتا تو ظاہر ہے کہ وہ اپنے منصب سے انصاف نہیں کر سکتا۔لیکن خبر کو محض خبر کے طور پر دیکھنا، اور اس بات کا ثبوت فراہم کرنا ک اسی نظر نے پہلی مرتبہ کسی واقعے کو دیکھا اور سمجھا ہے یہ بھی احساس سے پرے ایک دنیا ہے۔ ادا جعفری کا پورا شعر کچھ یوں ہے‘
ہمارے شہر کے لوگوں کا بس احوال اتنا ہے
کبھی اخبار پڑھ لینا کبھی اخبار ہو جانا
لفظ ’’کبھی‘‘معاشرے کی غفلت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے.
اخبار کا انتظار اور اخبار میں ایسی خبروں کو دیکھنے کا اشتیاق جس سے اخبار جلتا اور جھلستا ہوا دکھائی دے،ہماری تہذیبی زندگی کا بہت ہی افسوسناک پہلو ہے۔کسی نے کہا تھا کہ آنکھ کھلتے ہی جن خبروں پر نظر پڑتی ہے انھیں دیکھ کر ایک انسان کی حیثیت سے شرم آتی ہے کہ ہم کتنےغیر انسانی اور غیر اخلاقی ہو گئے ہیں۔لیکن اسی غیر انسانی اور غیر اخلاقی حرکتوں سے اخبار کی دنیا آباد ہے اور یہی دنیا اخبار کو اخبار بناتی ہے۔ہم اخبار میں کیا دیکھنا چاہتے ہیں،ظاہر ہے کہ صرف ہمارے چاہنے سے نہ تو دنیا بدل جائے گی اور نہ اخبار کی دنیا۔یہ ضرور ہے کہ بعض تحریروں سے یہ امید بند ھتی ہے کہ ان سے ہماری بصیرت میں اضافہ ہوگا اور یہ بصیرت ہمیں خبر کی سطح سے بلند کر کے نظر کی سطح تک لے آئے گی۔ ایسے قارئین کی تعداد کچھ کم نہیں جو اخبار کو صرف بھڑکتی ہوئی اور آگ اگلتی ہوئی خبروں اور سرخیوں کی وجہ سے نہیں پڑھتے۔خبروں کی سرخیاں کیسی ہوں ظاہر ہے کہ اس کا تعلق بھی موجودہ صورتحال سے ہے۔مگر سرخیاں کبھی کبھی شرمناک اور افسوسناک خبروں کے ساتھ بھی کچھ ٹھہر کر غور و فکر کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔یہ سرخیاں صحافت کے ان اذہان کا پتہ دیتی ہیں جن کی نگاہ میں روز مرہ کی زندگی بھی ہے اور وہ زندگی بھی جو گزر چکی ہے اور وہ بھی جس کا آنا ابھی باقی ہے۔
عجلت پسندی وقت کا تقاضا ہے یا خود کو ہم نے غیر ضروری طور پر زیادہ عجلت پسند بنا لیا ہے،اس سوال پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔صحافت کی فطرت میں جلد بازی ہے،مگر صحافت نے یہ کب کہا ہے کہ اطلاعات فراہم کرنے کی کوشش میں غور و فکر سے کام نہ لیا جائے۔کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ جیسے اطلاعات کو جمع کرنے کی دوڑ سی لگی ہوئی ہے۔اولیت کا سہرا اگر کسی خبر بنانے والے کے سر پر باندھ بھی دیا جائے تو اس سے کیا ہوتا ہے۔زندگی کی رسوائی دراصل انسان کی رسوائی ہے اور ہم احساس سے عام طور پر ماورا ہو کر خبروں کو جمع کرتے ہیں،تجزیہ کرتے ہیں۔ شروع سے آخر تک بس ایک شور ہے جو سنجیدگی کے لئے خطرہ ہے۔ ہر وقت اس انتظار میں بیٹھے رہنا کہ کون سی گھٹنا گھٹی ہے اور کس طرح ہمارا قلم رواں ہو سکتا ہے۔
مجھے ایک قاری کی حیثیت سے یہ صورتحال پریشان کرتی ہے۔ اخبار ہو جانا اور اخبار کو پڑھنا دونوں میں ایک فرق ہے۔اس فرق کے ساتھ کہ اخبار پڑھنے والا جب اخبار ہو جاتا ہے تو وہ اخبار پڑھنے کی تہذیب کو بھول چکا ہوتا ہے۔اخبار ہو جانا اخبار پڑھنے سے زیادہ خطرناک ہے۔یوں دیکھیں تو دونوں عمل بے حسی کی علامت معلوم ہوتا ہے۔سیاست کے ساتھ ہماری دنیا کے کچھ اور بھی حوالے اور تقاضے ہیں۔یہ ٹھیک ہے کہ سیاست کی گرفت سے ہماری تہذیبی زندگی کا کوئی بھی پہلو آزاد نہیں ہے۔پھر بھی اس سے آزادی کی کوئی صورت اگر نکل سکتی ہے تو نکالی جائے۔مشکل یہ ہے کہ ہماری نظر کچھ مخصوص خبروں کی متلاشی رہتی ہے،اور ہمارا ذہن انہی مخصوص خبروں کے تعلق سے بہت عجلت کے ساتھ غور کرنے پر آمادہ ہے۔ ایسے میں نظر سے خبر کا فکری رشتہ کمزور ہو جاتا ہے۔مشکل وقت خبر پر آیا ہے اور نظر پہ بھی۔نگاہ جتنی دور تک جا سکتی ہے،کہا جاتا ہے کہ صحافت کو اب ایسی نگاہ کی ضرورت نہیں۔وہ لوگ بھی جو بہت غور و فکر کے بعد مسائل کا تجزیہ کرتے تھے ان کے یہاں بھی عجلت پسندی نے ڈیرا جما لیا ہے۔ عجلت پسندی کی بھی صحافت نے ایک تہذیب سکھائی تھی۔عجلت پسندی فوری طور پر نتیجہ دیکھنا چاہتی ہےاسی لئے ہر اس فکر اور خیال کو اس جلد بازی سے خطرہ لا حق ہے،جسے روز مرہ اور عام زندگی کے حقائق کے ساتھ دور تک اور دیر تک سفر کرنا ہے۔فوری رد عمل کے لئے بھی ایک شعور کی ضرورت ہے یہ ضرور ہے کہ شعور کی یہ سطح مختلف خبروں اور خبروں کے تجزیے کے ساتھ مختلف ہو سکتی ہے۔ محدود ذہن کے ساتھ خبر بھی بعض اوقات بہت چھوٹی ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ خبر کا غیر اہم ہونا نہیں بلکہ خبر بنانے والے کی اپنی ذہنی سطح اور مجبوری ہے۔خبر اور خبر کا تجزیہ،گویا ایک ایسے کلچر کی گرفت میں ہے جو اطلاع تو فراہم کر سکتا ہے لیکن ہمیں فکری سطح پر مفلس بھی بناتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ وہ حقیقت ہے جس کی تردید کبھی کبھی اخباروں سے ہو بھی جاتی ہیں مگر اس کی مثالیں کم کم ہی سامنے آتی ہیں اخبار کے بغیر ہماری تہذیبی زندگی ادھوری معلوم ہوتی ہے۔ صبح اخبار اور ایک پیالی چائے کے ساتھ روشن ہوتی ہے، اسی درمیان دنیا میں کہیں اور کسی مقام پر انسانی خون پانی کی طرح بہہ رہا ہوتا ہے۔چائے کی پیا لی سے اٹھتا ہوا دھواں،پل بھر میں غائب ہو جاتا ہے لیکن اس کی ذرا سی موجودگی ہماری بے حسی کو آئینہ بھی دکھاتی ہے۔