تنقید و تبصرہ

سراجاً منیرا:ایک مطالعہ

ڈاکٹر محمدکاشف رضا شادؔمصباحی
مدرس: دارالعلوم رضائے مصطفے ۔گل برگہ شریف

۷/ اگست٢٠٢٤ بروز چہارشنبہ بعد نماز عصر تقدس مآب حضرت ڈاکٹر سید شاہ گیسو دراز خسرو حسینی صاحب قبلہ سجادہ نشین بارگاہِ بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ وچانسلر خواجہ بندہ نواز یونیورسٹی گل برگہ کے پرسنل اسسٹنٹ جناب میر محمد ولایت علی صاحب کے توسط سے پروفیسر علی رضا موسوی وائس چانسلر خواجہ بندہ نوازیونیورسٹی گلبرگہ کا ایک مکتوب اور ساتھ ہی سیرت وعظمتِ مصطفےٰ علیہ التحیۃ و الثناء پر مشتمل ایک کتاب ” سراجاً منیرا”(مصنف:حضرت ڈاکٹر سید شاہ خسرو حسینی صاحب قبلہ) کا غیر مطبوعہ نسخہ موصول ہوا۔راقم کو اس کتاب پر اخبار ات کے لیے تبصرہ لکھناتھا۔چونکہ اس کتاب کے مصنف سجادہ نشیں بارگاہ بندہ نوازگیسودراز علیہ الرحمۃ و الرضوان حضرت ڈاکٹر سید شاہ خسرو حسینی صاحب قبلہ ہیں لہذا راقم اپنی بعض ذمہ داریوں اور مصروفیتوں کوموقوف کرکے اس کتاب کے مطالعہ میں مصروف ہوگیا۔اپنی بے بساطی کا احساس ہونے کے باوجود اس کتاب پر کچھ لکھنے کی کوشش کرنے کے پیچھے بڑی وجہیں یہ تھیں۔
(الف) یہ کتاب سیرت وعظمت ِرسول علیہ التحیۃ و الثناء پرتحریر گئی ہے جس کا پڑھنا اور اس پر کچھ لکھنا میرے لیے اس سے بڑھ کر کوئی اور کام کیا ہو سکتا تھا جس کا سطر سطر دل ودماغ کے سکون اور عشق رسالت مآب ﷺ کے حصول کا سبب بننے والا تھا۔
(ب)اس کتاب کے مصنف کوئی عام فرد نہیں بلکہ ایک ایسی شخصیت کے مالک ہیں جن کی علمیت،تحقیقی و تنقیدی مزاج، عصر شناسی، زمینی کام اور نثر و نظم پر دسترس،اردو فارسی عربی انگریزی زبان میں ان کے یکساں مہارت کامیں پہلے ہی سے قائل تھا اس لحاظ سے ان کی تحریر پر کچھ لکھنا میرے لیے نہ صرف مسرت کا باعث تھا بلکہ کسی اعزاز اور افتخار سے کم نہ تھا۔
یہ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے۔پہلا باب دو فصلوں پر مشتمل ہے پہلی فصل میں نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کی آمد کی بشارتوں پر مشتمل بعض غیر مسلم ادیان کے متبعین کی کتب سے اہم اقتباسات پیش کیے گئے ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر کردوں کہ تینوں ابواب کے آغاز میں باب کی مناسبت سے قصیدہ بردہ شریف کے چند اشعار درج کیے گئے ہیں اور ان کا ترجمہ بھی درج کیا گیا ہے۔ پوری کتاب میں مناسبات کی رعایت کرتے ہوئے عربی،فارسی اور اردو اشعاربھی درج کیے گئے ہیں جوحضرت مصنف کے شعری ذوق، شعر فہمی، مختلف زبانوں کے اکابر شعرا کے کلام کے برمحل استعمال پر دَرک کا پتہ دیتے ہیں یہاں اس بات کا تذکرہ بھی بجا ہوگا کہ حضرت مصنف نے پوری کتاب میں دیگر زبانوں کے اشعار اوراقتباسات کا اردو میں سلیس،سہل انداز میں جس خوبصورتی کے ساتھ ترجمہ فرمایا ہے وہ ان کے اس فن پر کامل دسترس کابین ثبوت ہے بعض اہم فارسی اور عربی کتب کے بعض اقتباسات کا جس خوبصورتی سے آپ نے ترجمہ کیا ہے اسے پڑھ کر متمنی بھی ہوں اور ملتجیِ بارگاہ رب بھی ہوں کہ حضرت مصنف سے خدا یہ کام بھی لے لے کہ اس کتاب کا مکمل ترجمہ کردیں کیوں کہ بعض ان کتابوں کی عبارات کا ترجمہ بھی دیکھنے کو ملاجس کا اردو ترجمہ میری نظروں سے نہیں گزرا۔
کتاب کی زبان اور انداز بیان انتہائی سادہ اور سہل ہے لفظی اَثقال اور فکری اِنجلاک سے پاک،تعبیر و توضیح اتنی صاف اور ستھری ہے کہ دل و دماغ میں بآسانی میں اترتی چلی جاتی ہے،عبارات میں اربتاط اور تسلسل کے حسن کو برقرار رکھنے کے لیے اضافی اور ضروری باتوں کی وضاحت حاشیے میں کی گئی ہے پوری کتاب کے حاشیے کی کِیاریوں میں فکر وفن اور تحقیق وتنقید کے وہ صاف وستھر ے چشمے بہائے گئے ہیں جس کی شفافیت میں مصنف کے وسعت مطالعہ، تحقیقی مزاج، عشق کا سوز وگدازاور فکری شگفتگی کی آفاقیت صاف نظر آتی ہے، بعض آیات قرآنیہ اوراحادیث مبارکہ کے علاوہ صوفیانہ وعلمی عبارات کے ضمن میں پیش کیے گئے نکات الہامی معلوم ہوتے ہیں جو اپنے قاری کے لیے ایک خوشگوار فضا بناتے ہیں اور علمی دنیا کی سیر کراتے ہیں۔

پہلے باب کی پہلی فصل کے حاشیے میں رسول گرامی وقار علیہ الصلاۃ والسلام کی نسبی شخصیات کے تعارف اور بیان ِفضائل پر خصوصی توجہ دی گئی ہے جس میں تاریخی چھان بین،اختلاف تواریخ میں تطبیق کو جس خوبصورتی اور کمال مہارت سے پیش کیا گیا ہے وہ حضرت مصنف کے علم تاریخ و سیر پرکامل دسترس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس ضمن میں بعض ان مسائل کو بھی جگہ دی گئی ہے جس میں علماے امت اور محققین زمانہ کا علمی وفکری اختلاف ہمیشہ سے رہا ہے۔ حضرت مصنف نے ان اختلافات پر نہ صرف سیر حاصل گفتگو کی ہے بلکہ ان کا علمی اور عقیدتمندانہ حل پیش کرتے ہوئے اپنے رجحان کو بھی رکھا ہے۔ بعض چیزوں کی نشاندہی اور حضرت مصنف کے رجحانات کو یہاں رکھتا ہوں کہ یہ باتیں نا صرف کئی اشکالات کا حل ثابت ہونگی بلکہ بہتوں کوقیل وقال کے شورسے نکلناآسان ہوجائے گا۔
(الف) ایمان ِوالدین مصطفےٰ علیہ التحیۃ و الثناء کے حوالے سے امت میں اثبات ونفی کے حاملین کے درمیان بڑی بحثیں ہوئیں لیکن عشق و عقیدت کا پہلو اپنے حقائق اور دلائل کی بنیاد نا صرف غالب رہا بلکہ ہر غیر متعصبانہ نظریے کے حاملین کو اپنا قائل کرتا رہا اس حوالے سے حضرت مصنف نے سبھی کے نظریات کو سامنے رکھ کر دلائل پیش کیے ہیں پھر اپنا وہ فیصلہ سنایا ہے جو عشق و وارفتگی کی فتح مبین کے جلوؤں کو عیاں و بیاں کررہا ہے۔حضرت مصنف لکھتے ہیں:
“ہم کو اس بات پر یقین ہونا چاہیے کہ حضرت سرور کائنات ﷺ کے والدین ان سارے اتہامات سے پاک وصاف تھے حضور اکرم ﷺ جن کے بطن سے ظاہر ہوئے ہوں اس بطن کو اور بطن کے والی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کی میلاد کے لیے بنایا تھا ایسی خاتون کے بارے میں اور ایسی شخصیت جن کے صلب سے نور محمدی منتقل ہوا ہو ہم کیسے سوچ سکتے ہیں کہ ان کا دامن شرک سے ملوث تھا؟ اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ اور بی بی آمنہ کو ہر قسم کی آلائش سے پاک و ستھرا کیا ہے تاکہ حضور اکرم ﷺ کا ظہور ہو۔………………………. کیا ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ بی بی مریم کا دامن کفر سے داغدار تھا؟ کیونکہ انہوں نے ایک نبی کو پیدا فرمایا تھا اللہ تعالیٰ نے ان کو پاک وشفاف فرمادیا تھا۔ “
(ب) ایمان ِ ابوطالب کا مسئلہ ان مسائل میں سے ہے کہ جس کے اثبات ونفی کی جنگیں شاید کل سے زیادہ آج ہورہی ہیں اور یہ بحث علمی دائرے سے نکل کر ذاتیات پرحملے تک جا چکی ہے اور بعض ”اہل علم“ اس معاملے میں حد درجہ نیچے گر تے نظر آرہے ہیں۔ اس حوالے سے بھی حضرت مصنف نے گفتگو کی ہے اور سیدنا سرکار بندہ نواز گیسودراز علیہ الرحمۃ والرضوان کے ملفوظات شریف ” جوامع الکلم ” کے حوالے سے ایک روایت پیش کی ہے جس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ بعدِ وصال قبولِ ایمان کے لیے والدین ِ مصطفےٰ علیہ التحیۃ والثناء کے ساتھ ابوطالب کا بھی اٹھایا جانا اوردولت ِایمان سے مشرف کیا جانا ثابت ہے یہ روایت سیدنا سرکار بندہ نواز گیسودراز علیہ الرحمۃ والرضوان نے تفسیر” ام المعانی” کے حوالے سے پیش کی ہے اور اس خصوصیت کو والدینِ مصطفےٰ علیہ التحیۃ والثنا ء اور ابوطالب کے ساتھ خاص مانا ہے اوراس روایت پر اپنے تعجب کا اظہار فرمایا ہے کہ
”اس عجیب بات کو صرف تفسیر ام المعانی میں ہی پڑھی“۔ اس ضمن میں حضرت مصنف لکھتے ہیں:

حضرت ابو طالب حضرت عبداللہ اور بی بی آمنہ کے ایمان کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے گریز کرنا ہی بہتر ہے ہمارا تو یہ ایمان ہے جس شخص کی بھی حضور سے نسبت ہوئی اس کے مقام و منزلت پر شک کرنا بھی غلط ہے اور بے حرمتی کرنے کے مترادف ہے حضرت ابو طالب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی چچا تھے اور اس قدر آپ سے محبت رکھتے تھے کہ اگر آپ دسترخوان پر نہ ہوتے تو ابو طالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کرتے اور ہر وہ جو دسترخوان پر ہوتا سیر نہ ہوتا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا بیٹا کہتے”
(ج) ترتیب خلافت کا مسئلہ آج کل بڑی شدت سے زیر بحث ہے اس کو بھی حضرت مصنف نے واضح طور پر لکھ دیا ہے۔حضرت مصنف نے پہلے باب کی پہلی فصل میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے القابات،خصوصیات، فضائل ومناقب،فہم و فراست،حکمت وتدبر، شجاعت وصلابت اور شخصیت پر بڑی تفصیل سے لکھا ہے جسے پڑھنے کے بعد حضرت مصنف کے وسعت مطالعہ، ماخذ پر مطلع، عربی زبان وادب کی باریکیوں اورجمالیات پر گہری نظر کا پتہ چلتا ہے۔فضائل حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تحت سید نا سرکار بندہ نواز گیسودراز علیہ الرحمۃ والرضوان کے ملفوظات شریف ” جوامع الکلم” کے حوالے سے حدیث معراج سے خرقہ خلافت کا واقعہ تحریر فرما کر اس کے ضمن میں نکتہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” حضور ﷺ کی حیات مبارکہ ہی میں ترتیب خلافت بتلادی گئی، ابوبکر ]رضی اللہ عنہ، عمر ]رضی اللہ عنہ[، عثمان ]رضی اللہ عنہ[ اور علی ]رضی اللہ عنہ [اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خلافت کی ترتیب کا نظم معراج کی رات کو ہی طے پایا۔“
(د)مقام ولادت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے حضرت مصنف نے حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو”مولود کعبہ“ تحریر فرمایا ہے اب حضرت مصنف کی اس تحریر کو پڑھنے کے بعد اس باب میں تلاش حقائق کی طلب مزیدبڑھ گئی ہے خدا کرے کہ اس باب میں دلائل وبراہین پر مشتمل کتب تک راقم کی رسائی ہوجائے۔
(#ہ) قرآن مجید اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کی سیاسی ومذہبی قیادت کے متعلق شیعان ِحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اہل سنت وجماعت کے نظریے پرآپ نے بڑی خوبصورتی سے روشنی ڈالی ہے جسے پڑھنے کے بعد آنکھیں ہی نہیں بلکہ دل ودماغ کے دریچے بھی وا ہوتے نظر آتے ہیں۔
پہلے باب کی پہلی فصل میں تاریخی اور بعض اہم مختلف فیہ مسائل کے ساتھ درجنوں ضمنی مسائل کو بھی جگہ دی گئی ہے جو اپنے قاری کو تاریخی شعور سے آگہی بخشتے ہیں اور علمی وفنی مباحث کے ذریعہ سچائی اور وارفتگی سے قریب تر کرتے ہیں اور اپنی اپنی منزل کے متلاشی اپنے اندر مسرت کا احساس پیدا کرتے ہیں۔
پہلے باب کی دوسری فصل میں تخلیقِ مصطفےٰ علیہ التحیۃ والثناء کے ساتھ سراپاے مصطفےٰ ﷺ کو لفظوں کا جامہ پہنا کر سپرد قرطاس کرکے عشق نبی کی لو تیز کرنے اور دیدار مصطفےٰ کا متمنی بن جانے کا سامان فراہم کیا گیا ہے اس ضمن میں مہر، مہر نبوت، حلیہ مبارک، تکلم مبارک، لباس مبارک، بستر مبارک غذا مبارک، اخلاق مبارک اور عکس وعادات وکمالات وفضائل کے بعض جزوی باتوں کوبھی پیش کیا گیا ہے اس باب میں حضرت مصنف کی تحریر کا کمال یہ ہے کہ زبان وبیان اس قدر سادہ اور سہل رکھا ہے کہ عام قاری بھی اسے پڑھ کر شبنمی ٹھنڈک محسوس کرسکے اور عشق ومستی اور وارفتگی کی وادیوں میں گھومتا پھرے۔ان عناوین کے تحت انتخاب الفاظ، تعبیر کی دلکشی کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتاہے کہ ان باتوں کو پڑھ کرہی نہیں بلکہ دیدارکے شرف سے مشرف ہونے کے بعد لکھا گیا ہو اور ہر ہر لفظ اور جملوں میں شوق دروں اور سوز وگداز کی وہ کیفیت رکھ دی گئی ہو کہ باادب نگاہیں شوق دیدار کی پھر سے ملتجی ہوں۔
اس فصل میں حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی مکی اور مدنی زندگی، نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی مصروفیات،غزوات، سرایا،مختلف وفود،خطوط و فرامین اور مکہ ومدینہ کے حالات اور پیش آئے واقعات کو تاریخ بہ تاریخ پیش کیا گیا ہے جو بڑے اختصار کے ساتھ اہم اور مفید معلومات پر مشتمل ہے۔

اس فصل میں دو بحثیں توجہ کی حامل ہیں ایک” باغ فدک” کا مسئلہ اور دوسرا اصطلاح “اہل بیت” کا اطلاق۔ یہ دونوں مسئلے اہلِ سنت وجماعت اور اہلِ تشیع کے درمیان ابتدا سے ہی قیل وقال کی آماجگاہ رہے ہیں اور اس حوالے سے متضاد نظریے دلائل وبراہین سے آراستہ کیے گئے۔ اس باب میں حضرت مصنف نے اپنی رائے دلائل وبراہین کے ساتھ رکھی ہے جس میں ان کی نظریاتی تنقید پورے شباب پر ہے جو محققین و نقاد کو دعوت مطالعہ دیتی ہے اس ضمن میں حضرت مصنف نے ضمیمہ میں دل لگتی بات کہی ہے۔

یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ حضور ﷺ اور آپ ﷺ کے اہلِ بیت کے بارے میں عجیب تبصرے کیے جارہے ہیں۔ میری ادباً گزارش ہے کہ حضور ﷺ اور آپ ﷺ کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرنا بے ادبی اور بے حرمتی کے مترادف ہے۔ “
باب ثانی دو فصلوں پر مشتمل ہے یہ دونوں فصلوں کا مطالعہ قاری پر جہاں حضرت مصنف کی علمی گہرائی، فکری عروج کو ظاہر کرتا ہے وہیں حضرت مصنف کے نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام سے والہانہ محبت و وارفتگی کو فدائیت کی حد تک بیان کر رہا ہے۔ پہلی فصل میں اسلام اور ایمان کے فرق کو بڑے محققانہ انداز میں واضح کیا گیا ہے ساتھ ہی نبی کریم ﷺ کے بارگاہ الہی میں وسیلہ ہونے کی حیثیت کو بڑے لطیف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے خاص طور سے اس فصل میں نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کی عظمت ورفعت اور خصوصیت و انفرادیت کو بیان کرنے کے لیے انسان اور بشر کے معانی ومفاہیم اور اعتبارات وحیثیات کو واضح کرکے جن علمی، فکری اور فنی مباحث کو یہاں جگہ دی گئی ہے کہ اس کی تفہیم اہل علم پر ہی عیاں ہوسکتی ہے وہ بھی بار بار پڑھنے کے بعد۔ اس ضمن میں پیش کیے گئے مباحث فقط علمی وفکری ہی نہیں ہیں بلکہ حضرت مصنف کے نبی کریم ﷺ سے والہانہ وارفتگی کا بین ثبوت بھی ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کی بشریت اور آیت مبارکہ قُلْ اِنَّمَآ أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ میں بشر اور مثل سے مراد اور اس کا نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام اور دیگر عام فرد پر اطلاق کی حیثیت کو جس انداز میں حضرت مصنف نے بحیثیت تمثیل اور بحیثیت اعتبارات ِ مماثلت و مفارقت تشریح و توضیح فرمائی ہے اور جن علمی وفکری نکات کو عیاں کیا ہے وہ بہت ہی منفرد ہے۔ بالخصوص بشر اور انسان کی قرآنی معانی مفاہیم اور ان کے اطلاقات و خصوصیات پراہم تحقیق پیش کی گئی ہے۔
دوسرے باب کی دوسری فصل میں چار آیات مبارکہ ۱/۲۔ وَمَآ أَرْسَلْنَٰکَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِیرًا ۳۔ وَمَآ أَرْسَلْنَٰکَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِیرا ۴۔ وَمَآ أَرْسَلْنَٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَٰلَمِینَ کے تحت حضرت مصنف نے تحقیق وتدقیق کے وہ چشمے بہادیئے ہیں کہ پڑھنے والا داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا بلکہ اس تحقیق وتدقیق پرشاداں وفرحاں نظر آتا ہے ان مباحث کی روشنی میں حضرت مصنف کاعلم قرآن،علم حدیث، علم لغات، علم فلسفہ، علم منطق، علم معانی، علم بیان، علم بدیع، علم تاریخ، علم سائنس، علم تصوف پر کامل دسترس کا پتہ چلتا ہے۔ ان آیات کی روشنی میں عظمت رسالت ﷺ کو جس خوبصورتی کے ساتھ بیان کیاگیا ہے وہ اپنے قاری کوتنہائی کا متلاشی اور راہ عشق ومستی کا سرگرداں بنادیتی ہے۔
تیسراباب دو فصلوں پر مشتمل ہے پہلی فصل میں حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی شخصیت کو بطور” انسانِ کامل ” متعارف کرایا گیا ہے جس میں ” انسان کامل “کے معانی اور اس کی اصطلاحی حیثیت کو بڑے موثر انداز میں واضح کیا گیا ہے اور حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے ” انسان کامل” ہونے کو اقوالِ صوفیا کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔صوفیاے کرام حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے” انسان کامل “ہونے سے کیا معنی مراد لیتے ہیں اور حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کس درجے کے اعتبار سے کس مقام پر فائز ہیں اس سلسلے میں صوفیاے کرام کے مختلف اقوال ونظریات کو سامنے رکھ کرسیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔یہاں پر ایک بات یقیناََ قابل توجہ ہے کہ حقیقت محمدیہ ﷺ کی معرفت کے متلاشیوں نےاس باب میں جس قدرجو کچھ بیان کیا ہے وہ انتہا نہیں ہے بلکہ سب کی اپنی اپنی رسائی ہے۔ ذات مصطفےٰ علیہ التحیۃوالثناء کا انکشاف جن پر جس قدر ہوا اسی قدر انہوں نے بیان کیا۔اس ضمن میں حضرت مصنف نے صوفیا ے کرام کے مختلف اقوال کی وضاحت،اور ان میں تطبیق بڑے احسن انداز میں دی ہے کہ کسی بھی طور پر تضاد لازم نہ آئے جس کا ماحاصل یہی ہے کہ جس پر جتنی حقیقت کھلی ہے اس نے اسی قدر بیان کیا ہے اور صوفیا ے کرام کے نزدیک حقیقت محمدیہ کو سمجھانے کے لیے مختلف تماثیل کا ملنا یہ ان کی اپنی اپنی ترسیل ہے ورنہ حقیقت محمدیہ کو بیان کرنے کے لیے مشاہدات کو لفظوں کا جامہ پہنا پانا بہت مشکل ہے۔

اس باب کی دوسری فصل میں نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے مختلف اوصاف کو صوفیانہ تعلیمات کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے گویا نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی حقیقت کو دو طرح سے بیان کیا گیا ہے ایک ظاہری اور ایک باطنی،جنہیں شریعت اور طریقت کا نام دیا جاتا ہے۔حضرت مصنف نے نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی دونوں حقیقتوں کو تعلیماتِ صوفیاے کرام کی روشنی میں بہت خوبصورتی سے واضح کیا ہے۔اس کتاب کا تیسرا باب نہایت اہمیت کا حامل ہوگا اور نا صرف شریعت کے ماہرین کو اپنی جانب متوجہ کرے گا بلکہ طریقت کے حاملین کو بھی سکون و طمانیت کا سامان فراہم کرے گا۔راقم پورے وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ سیر وعظمتِ مصطفےٰ علیہ التحیۃ والثنا ء پر تحریر کی جانے والی کتب میں ”سراجا منیرا“ کو اس کا تیسراباب نفرادیت عطا کرے گا۔تیسرے باب کی دونوں فصلوں کا بالاستیاب مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ حضرت مصنف کی تصوف کی کتابوں اور صوفیاکی تعلیمات پر بڑی گہری نظر ہے بلکہ اس باب کو پڑھنے کے بعد اس بات کا بھرپور احساس ہوتا ہے کہ حضرت مصنف پر سیدی سرکار بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمۃ والرضوان کامکمل فیضان برس رہا ہے اور سیدنا سرکار بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمۃ والرضوان کے مرقد مبارک سے روحانی فیض کی ایک شعاع حضرت مصنف پر پڑرہی ہو جس کی ضیا بارکرنوں میں ان کا قلم حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی ظاہری اور باطنی مقامات رفیعہ کی عظمتوں کو بیان کر رہا ہو۔
اس کتاب میں ایک ضخیم ضمیمہ بھی شامل ہے یہ ضمیمہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے جس میں بعض اہم ضمنی باتوں پر دلچسپ اورمنفرد تحقیق شامل ہے۔ بعض باتوں کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے خاص طورسے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ایک فیصلے کے ضمن میں ڈی این اے کے حوالے سے ضمیمہ میں جو تحقیق شامل کی گئی ہے اسے پڑھنے کے بعد اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ حضرت مصنف میدان تحقیق میں نہ صرف محتاط ہیں بلکہ تحقیق کے تمام تر لوازمات کا اور اصولوں کا وہ مکمل دھیان رکھتے ہیں، تحقیق کے معاملے میں وہ کسی ایک پر آنکھیں بند کر کے بھروسہ نہیں کر لیتے ہیں بلکہ وہ جس چیز کی تحقیق کر رہے ہوتے ہیں اس میدان کے ماہرین کی رائے کو سامنے رکھ کر ایک بہتر نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ضمیمہ میں حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ میں آنے والے وفود کی تفصیلات کا بہترین خاکہ پیش کیا گیا ہے جس میں وفود کا نام،سال، قائد، تعداد افراد، مقام، موضوع اور کیفیات کو سلیقے سے پیش کر کے اس باب میں واقفیت حاصل کرنے والوں کے لیے بڑی آسانیاں کر دی گئی ہیں۔ ضمیمہ میں عربی زبان کی خصوصیات پر بھی لکھا گیا ہے یہاں پر ایک دلچسپ بات لکھتا ہوں کہ حضرت مصنف نے پوری کتاب میں عربی زبان و ادب پر جس انداز میں محققانہ گفتگو کی ہے اس کے مطالعہ سے مجھے بار بار”المبین“اور اس کے مصنف حضرت علامہ سید سلیمان اشرف رحمۃ اللہ تعالی علیہ پروفیسر شعبہ دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ یاد آتے رہے،دوران مطالعہ جب ضمیمہ میں پہنچا تو ان کا حوالہ پا کر خوشی کا احساس ہوا کہ حضرت مصنف جس چیز کی تحقیق کرتے ہیں ان کے سامنے مختلف زبانوں پر مشتمل قدیم و جدید کتب اور مقالے نظروں کے سامنے ہوتے ہیں۔


ضمیمہ میں کائنات کے حوالے سے بڑی عمدہ گفتگو کی گئی ہے اور اس ضمن میں انگریزی زبان کے کئی اقتباسات کا ترجمہ اردو زبان میں خودحضرت مصنف نے کیا ہے اس تحقیق کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت مصنف کی نظر علم نجوم اور علم فلکیات پر بھی بڑی گہری ہے ساتھ ہی کائنات کے حوالے سے جدید سائنس کیا کہتی ہے اور صوفیاے کرام کیا کہتے ہیں اس پر حضرت مصنف نے سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے۔ ضمیمہ میں سرایا وغزوات کو بھی سنہ،نام، قائد مسلم، قائد دشمن اور مدینہ منورہ سے فاصلہ،فریق،فریقین کی تعداد اور کیفیات کا خاکہ بھی عمدہ طریقے سے دیا گیا ہے اسی طور پر حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے مختلف فرامین جو مختلف قبائل کی طرف بھیجے گئے اس کی بھی تفصیل سنہ، فرمان،فرمان بنام، مقام، موضوع، قاصد اور کاتب کی تفصیل کے ساتھ خاکہ دیا گیا ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید کی سورتوں اور آیتوں میں نزول کے اعتبار سے، تعداد کے اعتبار سے جن علما اور ائمہ میں اختلاف پایا جاتا ہے اسے بھی ضمیمہ میں شامل کیا گیا ہے اور اس ضمن میں قرآن کی فصاحت و بلاغت پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔ مختلف بادشاہوں کے نام حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے بھیجے گئے خطوط کا بھی ضمیمہ میں تذکرہ کیا گیا ہے اور بعض خطوط کا عکس اور اس کو تحریرََاوترجمتاََ بھی شامل کیا گیا ہے۔ضمیمہ کا آخری حصہ ”صراط مستقیم“ کے عنوان سے دلچسپ قرآنی تحقیق اور فکر انگیزباتوں پر مشتمل ہے جس میں مختلف لغات اور کتب تفاسیر کے حوالے سے قرآن مجید میں مستعمل ”صراط مستقیم“ کی وضاحت کی گئی ہے اور اس ”صراط مستقیم“ تک رسائی اور عدم رسائی کے حامل گروہوں کو بیان کرتے ہوئے اس بات کی تعین کی گئی ہے کہ”صراط مستقیم“ سے ذات مصطفےٰ علیہ التحیۃ والثناء مراد ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر ”صراط مستقیم“ کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ہے۔اگر گہرائی میں ڈوب کر سوچا جائے تو ایک سوال باربار ذہن میں آتا ہے کہ آخر کتاب کے اخیر میں ”صراط مستقیم“ کی تفصیل اور اس سے ذات مصطفےٰ علیہ التحیۃ والثناء مراد ہونے کو بیان کی کیا وجہ ہوسکتی ہے تو عشق اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور کرتا ہے کتاب کا ماحصل ہی ”ذات مصطفےٰ علیہ التحیۃ والثناء“ کی وابستگی کو بیان کرنا ہے اور رب تک رسائی کا ذریعہ جو ”صراط مستقیم“ ہے وہ ذات مصطفےٰ علیہ التحیۃ والثناء ہی ہیں۔
کتاب کا ورق ورق اہل ذوق،اہل دل،اہل نظر محققین ونقاد کو دعوت قرأت دے رہا ہے۔امیدکہکتاب سیرت وعظمت رسول علیہ الصلاۃ والسلام کے باب میں ایک خوبصورت اضافہ ثابت ہوگی جو اہل تحقیق اور اہل دل دونوں کے لیے پرکشش ہوگی۔ خدا کرے کہ ”سراجا منیرا مقبول عام وخاص ہو اور قبولِ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی دولت سے سرفراز ہو اور سیدنا سرکار بندہ نواز گیسودراز علیہ الرحمۃ والرضوان کا فیضان عام وتام ہو۔
؎ایں دعا از من واز جملہ جہاں آمین باد

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید و تبصرہ

رسالہ’’التماس‘‘ ایک مطالعہ

احمد رضا اشرقی گریڈیہہ، جھارکھنڈ دین دوچیزوں کے مجموعہ کا نام ہے، ایک چیز تو خود دین اور دوسری چیز
تنقید و تبصرہ

غیر مسلم صحافیوں کی خدمات

شکیل رشید ’’غیر مسلم صحافیوں کی خدمات : فرقہ پرستوں کے بھرم کو توڑنے کی ایک لاجواب کوشش‘‘ انگریزی زبان