خبرنامہ

ششی تھرور بمقابلہ کانگریس:پارٹی کے اندر بغاوت کی چنگاری؟

[ششی تھرور کی پوزیشن کو لے کر کانگریس پارٹی ایک عجیب میں کشمکس پھنسی ہوئی ہے۔ پارٹی کو معلوم ہے کہ تھرور ناراض ہیں، اور ان کی ناراضی کی وجوہات سے بھی اچھی طرح آگاہی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟ ایک طرف تھرور ہیں جو چار بار کے رکنِ پارلیمان ہونے کے باوجود خود کو نظر انداز کیے جانے کا گلہ کرتے ہیں، تو دوسری طرف کے سی وینوگوپال ہیں، جو اس وقت راہول گاندھی کے نہ صرف قریبی سمجھے جاتے ہیں بلکہ پارٹی میں ان کی حیثیت “آنکھ اور کان” جیسی ہو چکی ہے۔تھرور کا شکوہ ہے کہ لوک سبھا میں ان کی نشست اتنی پچھلی قطار میں کیوں ہے، جبکہ وینوگوپال کو نمایاں جگہ دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پارٹی قیادت سے ملاقات کے لیے وقت تک میسر نہیں آتا۔ تھرور کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ یہ سب سلوک اس وجہ سے ہو رہا ہے کیونکہ انہوں نے صدرِ کانگریس کے انتخاب میں مَلّیکارْجُن کھڑگے کے خلاف قسمت آزمائی کی تھی۔ اگرچہ وہ بھاری ووٹوں سے یہ انتخاب ہار گئے، لیکن پارٹی کے کچھ حلقوں میں انہیں گویا “باغی” کے طور پر دیکھنے کا تاثر بیٹھ گیا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ششی تھرور کو کانگریس میں لانے والے خود سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ تھے اور وہ انھیں اقوامِ متحدہ میں اعلیٰ عہدے تک لے جانا چاہتے تھے۔ اگرچہ تھرور اس انتخاب میں کامیاب نہ ہو سکے، لیکن ان کی قابلیت اور بین الاقوامی ساکھ سے انکار ممکن نہیں۔ پارٹی نے انہیں ورکنگ کمیٹی کا رکن بنا کر کچھ حد تک مطمئن کرنے کی کوشش کی، لیکن حالیہ برسوں میں کئی مواقع پر ان کے بیانات اور کردار سے اختلافات کھل کر سامنے آئے۔ خاص طور پر جب وہ پہلگام واقعے کے بعد غیر ملکی وفد کی قیادت کے لیے بھیجے گئے، یا جب انھوں نے ایک بین الاقوامی پلیٹ فارم پر ایئر اسٹرائیک پر تبصرہ کرتے ہوئے منموہن سنگھ حکومت کا ذکر تک نہ کیا، تو پارٹی قیادت میں ناراضی بڑھ گئی۔کئی سینئر رہنما تھرور کے خلاف سخت موقف رکھتے ہیں، مگر اس کے باوجود کانگریس پارٹی ان پر کوئی سخت قدم اٹھانے سے گریز کر رہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ نہیں چاہتی کہ تھرور کو سیاسی شہید بنا دیا جائے اور ان کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو۔ علاوہ ازیں، اگر پارٹی سے نکالا جاتا ہے تو تھرور کی رکنیت برقرار رہے گی اور وہ پارلیمان میں کھل کر کانگریس پر تنقید کر سکتے ہیں، جو پارٹی کے لیے سیاسی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تھرور نے 2024 کے انتخابات میں سخت مقابلے کے بعد جیت حاصل کی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں ان کی جیت کا فرق ایک لاکھ سے زائد تھا، جبکہ اس بار محض سولہ ہزار ووٹوں سے کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے باوجود، تھرور آج بھی کیرالہ میں خاصے مقبول ہیں، چاہے وہ نوجوان ہوں، خواتین یا متوسط طبقہ۔

حال ہی میں تھرور نے کیرالہ میں وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ایک عوامی جلسے میں شرکت کی، جس کے بعد سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ اس موقع پر وزیراعظم نے طنزیہ انداز میں کہا کہ کچھ لوگوں کی نیندیں اڑ سکتی ہیں۔ اس کے بعد تھرور کو ایک غیر ملکی وفد میں شامل کیا جانا مزید توجہ کا مرکز بن گیا۔کانگریس تھرور کے معاملے میں قدم پھونک پھونک کر رکھ رہی ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ تھرور پر کارروائی کر کے ریاست میں مسلم لیگ یا نائر برادری کو ناراض کیا جائے، جو پارٹی کے اہم اتحادی اور ووٹر ہیں۔ سیاسی مصلحتوں کا یہی جال ہے جس کی وجہ سے فی الحال پارٹی تھرور کو چھیڑنے کے موڈ میں نہیں ہے۔دوسری جانب، تھرور بھی جانتے ہیں کہ وہ پارٹی آئین کے پابند ہیں اور کوئی بھی فیصلہ تبھی لیں گے جب انہیں کسی جانب سے براہ راست پیشکش کی جائے گی۔ اس وقت تک وہ پارٹی کی دی گئی حدود کے اندر رہ کر ہی اپنی ناراضی اور تحفظات ظاہر کرتے رہیں گے۔

اگر آپ چاہیں تو اس مواد پر

admin@alnoortimes.in

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

خبرنامہ

لاس اینجلس میں جنگل کی آگ سے بڑے پیمانے پر تباہی، اموات کی تعداد 24ہوئی، امدادی کوششیں جاری

امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لا اینجلس میں ایک ہفتے سے لگی بھیانک آگ مزید 8 جانیں نگل
خبرنامہ

چین کبھی بھی امریکہ کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا

واشنگٹن(ایجنسیاں) صدر بائیڈن نے پیر کو خارجہ پالیسی پر اپنی آخری تقریر میں بڑا دعویٰ کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر