شاہی عیدگاہ مسجد کیس: ہائی کورٹ کا ہندو فریق کو جھٹکا

الٰہ آباد ہائی کورٹ نے شاہی عیدگاہ مسجد کو ’متنازع ڈھانچہ‘ کہنے کی ہندو فریق کی درخواست خارج کر دی، اگلی سماعت 2 اگست کو مقرر۔
الٰہ آباد ہائی کورٹ نے متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد سے متعلق ایک اہم درخواست کو خارج کرتے ہوئے ہندو فریق کو زبردست جھٹکا دیا ہے۔ عدالت نے صاف طور پر اس بات سے انکار کیا کہ مسجد کو مقدمے کے دوران “متنازع ڈھانچہ” کے طور پر لکھنے یا پکارنے کی اجازت دی جائے۔ جسٹس رام منوہر نارائن مشرا کی سنگل بنچ نے ہندو فریق کی عرضی کو مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ قانونی طور پر کسی مذہبی مقام کو اس طرح “متنازع ڈھانچہ” کہنا درست نہیں ہوگا۔عدالت نے مزید کہا کہ چونکہ اس مقام کے مالکانہ حق سے متعلق الگ مقدمہ بھی زیر سماعت ہے، اس لیے صرف “متنازع ملکیت” کی اصطلاح استعمال کی جا سکتی ہے، نہ کہ “متنازع ڈھانچہ”۔ مالکانہ دعوے پر سماعت 18 جولائی کو طے ہے جب کہ اصل مقدمے کی اگلی تاریخ 2 اگست مقرر کی گئی ہے۔
درخواست گزار ایڈوکیٹ مہندر پرتاپ سنگھ نے عدالت میں مختلف تاریخی حوالوں اور ریکارڈز کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس مقام پر مندر ہونے کے شواہد موجود ہیں، جب کہ مسجد ہونے کا کوئی مستند ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ زمین کے سرکاری کاغذات، کھتونی اور دیگر ریکارڈ میں بھی مسجد کا ذکر نہیں ملتا، اور ماضی میں بجلی چوری کے الزام میں مسجد انتظامیہ کے خلاف رپورٹ بھی درج کی جا چکی ہے۔دوسری جانب مسجد کمیٹی کے وکیل نے ان تمام دلائل کو مسترد کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ شاہی عیدگاہ مسجد ایک جائز اور تسلیم شدہ عبادت گاہ ہے، اور اسے متنازع کہنا بلاجواز ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندو فریق کے پیش کردہ بیشتر “ثبوت” غیر مستند اور بے بنیاد ہیں۔عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد درخواست خارج کر دی، اور “متنازع ڈھانچہ” جیسی اصطلاح استعمال کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔