ٹرمپ ٹیرِف پر امریکی ماہرِ معاشیات کی سخت تنقید

ٹرمپ نے بھارت پر 25٪ ٹیرِف لگایا، ماہرِ معاشیات جیفری سَیچ نے اسے امریکہ کی سب سے بڑی غلطی قرار دے کر برکس کے مضبوط ہونے کا عندیہ دیا۔
امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ طویل عرصے سے اپنی تجارتی پالیسیوں خصوصاً ’’ریسِپرَوکَل ٹیرِف‘‘ کو بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔ تاہم، خود امریکی ماہرینِ معیشت کی جانب سے ان اقدامات پر شدید تنقید سامنے آ رہی ہے۔ حالیہ مثال اس وقت سامنے آئی جب امریکہ نے بھارت پر پچیس فیصد اضافی محصول عائد کیا۔ اس فیصلے کو کولمبیا یونیورسٹی کے ممتاز ماہرِ معاشیات اور سابق اقوامِ متحدہ کے مشیر جیفری سَیچ نے امریکی تاریخ کا ’’سب سے بے وقوفانہ قدم‘‘ قرار دیا ہے۔
جیفری سَیچ کے مطابق، بھارت پر یہ اضافی محصول اس وقت لگایا گیا جب نئی دہلی نے روس سے تیل خریدنے کی پالیسی اختیار کی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام نے امریکہ کے بجائے برکس ممالک—برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ—کو ایک نئی طاقت اور یکجہتی فراہم کر دی ہے۔ ان کے بقول، امریکی صدر نے اپنی پالیسی کے ذریعے نادانستہ طور پر برکس کو غیر معمولی تقویت بخشی اور ان ملکوں کے درمیان ہم آہنگی بڑھا دی۔انھوں نے واضح کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کا یہ فیصلہ نہ صرف وقتی نقصان دہ ہے بلکہ اس کے اثرات طویل المدت ہوں گے۔ بھارت ان چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جنہیں امریکہ اپنی اسٹریٹجک شراکت داری کے لیے ہمیشہ ترجیح دیتا رہا ہے، مگر اس اچانک ’’ٹیرِف اٹیک‘‘ نے اس اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ جیفری کے مطابق، اب چاہے ٹرمپ انتظامیہ کل کو یہ محصولات ختم بھی کر دے، لیکن بھارتی قیادت اور عوام کے ذہن میں یہ احساس پختہ ہو چکا ہے کہ امریکہ پر اندھا اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
ماہرِ معاشیات نے یہ بھی کہا کہ اس فیصلے نے بھارت کو ایک سبق دیا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں محض وعدوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے عملی صورتِ حال کو مدِنظر رکھنا چاہیے۔ ٹرمپ نے اپنے فیصلے سے نہ صرف بھارت کو شاکی کیا بلکہ عالمی سطح پر امریکی خارجہ پالیسی کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ اس قدم نے اتحادیوں کے درمیان بداعتمادی کی فضا پیدا کی اور مخالف بلاکس کو قریب لانے کا کام کیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ نے جس حکمتِ عملی کے تحت بھارت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی، وہ الٹی خود امریکہ پر ہی پڑ گئی۔ برکس ممالک نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑھا دیا، جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر طاقت کا توازن ایک نئے رخ کی طرف بڑھنے لگا ہے۔