ثناء اللہ ثنا اور ان کا شعری مجموعہ ’’متاع تشنگی‘‘

ڈاکٹر جسیم الدین
مترجم، محکمہ کابینہ سکریٹریٹ، پٹنہ بہار
ثناء اللہ ثنا دوگھروی کی شخصیت مختلف الجہات ہے، وہ ایک کامیاب استاذ، دلربا شاعر ہونے کے ساتھ زبان وبیان پر قدرت کاملہ رکھتے ہیں، ان سے میری شناسائی 2010 میں ہوئی، جب روزنامہ راشٹریہ سہارا سیکٹر 11 نوئیڈا میں بحیثیت مترجم جوائن کیا، یہاں اپنے علاقہ یعنی بہار کے جن چنندہ رفقاء کار سے ملاقات ہوئی ان میں ثناء اللہ ثنا صاحب بھی سر فہرست ہیں۔ یہاں ایک سال کی رفاقت رہی، 2011 میں جب انقلاب ممبئی کا اڈیشن شمالی ہند سے بھی دینک جاگرن کے تحت نکلنا شروع ہوا تو اس وقت کے اڈیٹر جناب شکیل حسن شمسی صاحب نے سہارا سے جن رفقاء کار کو یہاں اچھی سیلری پر کام کا زریں موقع فراہم کیا ان میں ثناء اللہ ثنا صاحب ودیگر کے ساتھ میں بھی شامل تھا، یہاں بھی ثناء اللہ ثنا صاحب کی معیت ملی رہی۔ اور ہم لوگ لینگویج ڈیسک پر مامور تھے۔ یہاں بھی ان کی شاعری جاری تھی، لیکن اس وقت تک باضابطہ ان کا کوئی شعری مجموعہ منظر عام پر نہیں آیا تھا، کچھ دنوں بعد جب انقلاب کا پٹنہ اڈیشن بھی نکلنا شروع ہوا، تو کچھ نوئیڈا اڈیشن کے تجربہ کار کارکنان کو یہاں ٹرانسفر کیا گیا، ان میں ثنا صاحب بھی شامل تھے۔یہاں آتے ہی ان کا پہلا شعری مجموعہ منظر عام پر آیا اور پھر یہ سلسلہ رکا نہیں۔ لوگ کہتے ہیں بہار کی سر زمین مردم خور ہے، لیکن ثنا صاحب نے اس مفروضے کو یکسر مسترد کردیا ہے، انھوں نے موقع اور ماحول کو غنیمت سمجھتے ہوئے ورکنگ جرنلسٹ ہونے کے ساتھ اپنے ادبی سفر کو نہ صرف جاری رکھا، بلکہ اس کی رفتار تیز کردی اور 2019 میں اڑان سے آگے (شعری مجموعہ) 2022 میں ستاروں سے آگے (نظمیں برائے اطفال) اور پھر 2024میں «متاع تشنگی» (غزلوں کا مجموعہ) منصۂ شہود پر آیا۔
ثناء اللہ صاحب کی دیرینہ خواہش تھی کہ میں بھی ان کے شعری مجموعہ اپنے تاثرات کا اظہار کروں۔ یہ سچ ہے کہ مجھے ان کی اس خواہش کی تکمیل میں کئی برس گزر گئے، لیکن اس تاخیر کی کوئی معقول وجہ نہ ہونے کے باوجود انھوں نے کبھی حرف شکایت زبان پر آنے نہیں دیا اور آخر کار 7 دسمبر کو محکمہ کابینہ سکریٹریٹ، پٹنہ کے حسب ہدایت ضلع اردو زبان سیل دربھنگہ کلکٹریٹ کے زیر اہتمام منعقدہ فروغ اردو سمینار ومشاعرہ میں قادر الکلام شاعر جناب عطا عابدی صاحب کی معرفت «متاع تشنگی» تازہ شعری مجموعہ موصول ہوا، بعد میں ثنا صاحب نے کال کر کے یہ کنفرمیشن بھی لیا کہ «متاع تشنگی» مجھ تک پہنچی یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ متاع تشنگی نے جیسے ان کی تشنگی بڑھائی ویسے ہی میری بھی تشنگی بڑھا دی۔ اب مزید تاخیر کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ ویسے ثناء اللہ صاحب کے علم وحلم سے میں بخوبی آشنا ہوں۔ وہ جن سے بھی ہم کلام ہوتے ہیں خوش مزاجی وخوش کلامی ان کا وصف مرغوب ہے۔ اپنے سے بڑے تو بڑے چھوٹوں کے ساتھ بھی ان کا سلوک بہت دلبرانہ ہوتا ہے۔
ان کی شاعری کے حوالے سے متاع تشنگی میں معروف ومشہور صاحب اسلوب ادیب جناب حقانی القاسمی صاحب نے لکھا ہے: « ثناء اللہ ثنا دوگھروی جواں سال شاعر ہیں، ان کا تخلیقی سفر تقریبا بیس پچیس سال کے عرصہ پر محیط ہے، اس دورانیے میں بہت سے مناظر حیات اور مظاہر فطرت سے ان کی آنکھوں کا رشتہ قائم ہوا، بہت سے تجربات ان کے شعور اور لاشعور کا حصہ بنے، انھوں نے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا وہ ان کی زنبیل شعر سخن کا جز بنتا گیا، اس لیے ان کی شاعری میں شہر، دیہات اور مختلف قریات وقصبات کے مشاہدات، تجربات اور منظر نامے ملتے ہیں۔ ثنا تعمیری ذہن کے حامل ہیں، ان کی شاعری مثبت پیغام اور مقصدیت سے جڑی ہوئی ہے اور ان کا پیغام ہے محبت، انسانیت، امن و آشتی،اتحاد وہم آہنگی»۔
مذکورہ اوصاف سے حقیقی طور پر آگہی کے لیے «متاع تشنگی» کو پڑھنا ہوگا۔ قاری خود محسوس کرے گا کہ ثنا کی شاعری میں وہ سبھی مناظر سمٹ کر آگئے ہیں جنھیں ہم آج اپنے معاشرے میں اپنے ارد گرد دیکھ رہے اور اس کا سامنا کر رہے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ «متاع تشنگی» شعری مجموعہ ارباب سخن کی توجہ کا مرکز بنے گا اور ثنا صاحب کی شاعری اپنی منفرد شناخت بنائے گی۔