ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ، معاہدے یا جنگ کا خطرہ؟

ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری معاہدے پر کشیدگی بڑھ گئی ہے، مذاکرات ناکام ہوئے تو فوجی تصادم کا خطرہ ہے۔
صدر ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد مشرق وسطیٰ اور یورپ میں امن کی کوششیں کیں، لیکن غزہ اور یوکرین میں وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ وہ یمن پر حملے کر چکے ہیں اور اب ان کی توجہ کا مرکز ایران ہے۔ایران سے متعلق امریکی پالیسی ایک بار پھر سخت ہو گئی ہے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنا ضروری ہے۔ حالاں کہ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں، لیکن امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو خدشہ ہے کہ ایران جوہری بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرنا چاہتا ہے جو خطے میں کشیدگی بڑھا سکتا ہے۔
2015 میں ایران نے امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا، جس کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے اور عالمی معائنہ کاروں کو رسائی دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی، جب کہ اس کے بدلے میں اقتصادی پابندیاں ہٹا لی گئی تھیں۔ لیکن 2018 میں ٹرمپ نے اس معاہدے سے امریکہ کو الگ کر لیا اور ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں لگا دیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ایران دہشت گرد گروپوں کی مالی مدد کر رہا ہے۔ایران نے بھی جواب میں معاہدے کی کچھ شرائط کو نظر انداز کرتے ہوئے یورینیئم کی افزودگی بڑھا دی۔ بین الاقوامی اداروں کے مطابق ایران اگر مزید افزودگی کرے تو اس کے پاس کئی جوہری بم بنانے کا مواد ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے حال ہی میں ایران پر مزید پابندیاں لگانے کی ہدایت کی ہے، خاص طور پر ان ممالک کے خلاف جو ایران سے تیل خرید رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سفارتی دباؤ بھی بڑھایا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر کو خط لکھ کر مذاکرات کی پیشکش کی ہے اور عمان میں دونوں ممالک کے حکام کی ملاقات کا امکان ہے۔امریکہ چاہتا ہے کہ ایران نہ صرف جوہری سرگرمیاں بند کرے بلکہ خطے میں حزب اللہ اور حوثیوں کی حمایت بھی ختم کرے، جو ایران کے لیے ناقابل قبول شرائط ہو سکتی ہیں۔
ایران کے اندر بھی صورتحال خراب ہے۔ مہنگائی، گرتی ہوئی کرنسی اور علاقائی اتحادیوں کی کمزوری کے باعث ایران دباؤ کا شکار ہے۔ کچھ حلقے سمجھتے ہیں کہ جوہری صلاحیت ایک دفاعی حکمت عملی کے طور پر ضروری ہو گئی ہے۔
اسرائیل واضح کر چکا ہے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کو مکمل ختم ہوتا دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے فوجی کارروائی کا امکان بھی موجود ہے، حالاں کہ اس کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ وقتی حل چاہتے ہیں، لیکن ماضی میں ایسا معاہدہ کرنے میں دو سال لگے تھے۔ فوری فیصلہ بازی شاید مؤثر نہ ہو۔ اگلے چند ماہ میں یہ واضح ہو جائے گا کہ ایران اور امریکہ کسی معاہدے پر پہنچ سکتے ہیں یا کشیدگی مزید بڑھنے والی ہے۔